کیا ہم واقعی آزاد ہیں

ایک جانب تو ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ملک کلمے کی بنیاد پر بنا ہے اور ریاست مدینہ کے بعد اسلام کے نام پر بننے والا واحد ملک پاکستان ہے، پھر یہ کہ اس کے لئے ہمارے آباؤاجداد نے بے شمار اور بے مثال قربانیاں دی تھیں، ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان نور ہے اور نور کو کبھی زوال نہیں آ سکتا، لیکن دوسری جانب آج پچھتر سال بعد ہم یہ سوال کررہے ہیں کہ کیا ہم واقعی آزاد بھی ہیں یا نہیں، پھر یہ سوال کہ اس ملک نے ہمیں کیا دیا ہے، کوئی بھی اس ملک میں رہنا نہیں چاہتا اور اس ملک کے ہر نوجوان کا خواب اس ملک سے باہر جانا ہے، آج عالم یہ ہے کہ بھائی بھائی کا دشمن ہے، مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے، بجلی گیس اور پٹرول اب اتنے مہنگے ہو گئے ہیں کہ سفید پوش لوگوں کا جینا محال ہو گیا ہے، پہلے ہم غیروں کے غلام تھے اب اپنوں کے غلام ہیں، کہاں ہے قانون کی حکمرانی، طاقتور اور ظالم کیسے کمزور پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں، یہ کیسی آزادی ہے کہ جہاں کے عوام کو اپنے ہی آزاد ملک میں انصاف ملنا ناممکن ہے، جہاں کا میڈیا آزاد نہیں ہے اور اس سیاسی جماعتوں اور مقتدرہ کی چھاپ لگی ہے، یہ کیسی آزادی ہے کہ جو بولے اسے چپ کروانے اور اسے اٹھا لینے کا رواج عام ہے، ملک کی معیشت سود اور قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے اور اس پہ آئی ایم ایف کی حکمرانی ہے، یہ کیسا آزاد ملک ہے کہ جس کی معیشت ہی قید ہے، ہر بڑا کاروبار سیا ست دانوں کے قبضے میں ہے ، جب ہمارے سارے فیصلے کہیں اور ہونے ہیں تو کس نے کہا کہ ہم آزاد ہیں، کیا ہم نے اس لئے آزادی حاصل کی تھی، کیا اس ملک میں وہ سب کچھ ہو رہا ہے جو دو قومی نظرئیے کی بنیاد تھا، کیا ہم ایک آزاد ملک کی فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں، کیا قائد اعظم کی فکر کے مطابق یہاں ہم سب کو اپنے مذہبی اور معاشرتی عقائد اور رسومات پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہے، کیا ہمارے ہاں قانون آزاد ہے، کیا اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے، کیا ہمیں اب اپنوں سے ہی ڈر نہیں لگتا ہے ،ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا ملک پانچ سو ارب ڈالر کا اور ہم سے الگ ہونے والا ملک چالیس ارب ڈالر کا مالک ہے اور ہم پر اتنا ہی قرضہ ہے، تو سوال تو بنتا ہے کہ کیا ہم واقعی آزاد ہیں، قارئین کرام سب سے آسان کام ہے کہ الزام دوسروں پر لگا کر خود کو بری الذمہ سمجھ کر آرام سے بیٹھ جانا، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ جتنے بھی مسائل کا میں نے ذکر کیا ہے وہ بالکل موجود ہیں اور جب تک آپ کو یہ احساس نہیں ہو گا کہ مسئلہ موجود ہے، پھر اس کی نوعیت کیا ہے اور پھر اس کے اسباب کیا ہیں، آپ کبھی بھی حل کی طرف جا ہی نہیں سکتے ہیں، تو سب سے پہلے یہ سمجھیں کہ ہمارا اصل مسئلہ ہے کیا، ہمارا اصل مسئلہ ہماری خود غرضی ہے جو مذہب کی اپنی مرضی کی تشریحات نے ہمارے اندر پیدا کی ہے، ہم نے ہمیشہ اپنا حق مانگا ہے اور کوئی بھی ایمان داری سے اللہ کی رضا کی خاطر اور اپنے ملک کی ترقی کی خاطر اپنا فرض ادا کرنے کو تیار نہیں ہے، اصل مسئلہ ہماری اپنی بے حسی ہے، سب سے طاقتور اور بالاتر ادارہ پارلیمان ہے اور پارلیمان کی اصل طاقت عوام ہے، کیا ہم نے کبھی ووٹ ڈالتے وقت اس بارے میں سوچا ہے یا اپنے سیاست دانوں کے سامنے یہ سوالات رکھے ہیں جو میں نے آپ کے سامنے کالم کے ابتدائی حصے میں رکھے ہیں، کیا ہمارے انفرادی اور اجتماعی اہداف کا تعین بھی ہوا ہے، کیا ریاست کے چاروں ستون ایک ہدف کے حصول میں یک جان ہو کر کوشاں ہیں، کیا تمام تعلیمی اداروں کا کوئی اجتماعی ہدف ہے، کیا تمام مسالک کا کوئی اجتماعی ہدف ہے، کیاتمام سیاست دانوں کا کوئی اجتماعی ہدف ہے، کیا ہم سب ووٹ کی اہمیت سے واقف ہیں، کیا ہم اپنی جگہ پر اس ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، بالکل یہ سوال کریں کہ کیا ہم آزاد ہیں لیکن اگر آپ کو لگتا ہے کہ ہم آزاد نہیں ہیں تو اس کا ذمہ دار اور کوئی نہیں ہم خود ہیں، آج سے پچھتر سال پہلے ایک قوم کو زمین کے ایک ٹکڑے کی ضرورت تھی جو انہوں نے بے شمار قربانیاں دے کر حاصل کیا اور آج اسی زمین کے ٹکڑے کو ایک قوم کی ضرورت ہے، آج یہاں سندھی، بلوچی، پنجابی، پٹھان، سنی، شیعہ، ملک، اعوان، چوہدری اور خان سب ہی موجود ہیںلیکن ڈھونڈنے سے بھی کوئی پاکستانی نہیں ملتا، یاد رکھیں قانون فطرت کے عین مطابق جو ہم نے بویا ہے وہی کاٹ رہے ہیں، اصل معاملہ یہ ہے کہ ہماری نسل نے اس ملک کو حاصل کرنے کی خاطر کوئی قربانی نہیں دی اور نہ ہی ہم نے کسی کو کوئی قربانی دیتے ہوئے دیکھا ہے، یہ ملک ہمیں ایک تحفے کی شکل میں ملا ہے اور ہم نے اس کی کوئی قدر نہیں کی ہے اور آج ہم یہاں پہنچ چکے ہیں کہ یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا ہم واقعی آزاد ہیں، ہماری نوجوان نسل کو یہ معلوم ہی نہیں کہ آزادی کی قدر و قیمت کیا ہے، اور ان کا کوئی قصور نہیں ہے اصل قصور ہمارا ہے کہ ہم نے اپنے قول اور فعل سے انہیں کچھ بتایا ہی نہیں ہے، ان کے لئے تو آزادی یہی ہے کہ یہ شور مچاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئیں، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے سلنسر نکال کر ان کو سڑکوں پر دوڑاتے رہیں، اونچی آواز میں گانے اور ترانے بجاتے رہیں، موٹر سائیکل سوار ون ویلنگ کا مظاہرہ کرتے رہیں، ہوائی فائرنگ، آتش بازی، ہلڑ بازی، لاؤڈ سپیکر کا غلط استعمال اور غل غپاڑہ ہو، خواتین کو ہراساں کیا جائے، ان پر فوم سپرے اور پانی پھینکا جائے، قارئین کرام پہلے وطن عزیز کے لئے دی گئی عظیم قربانیوں کی مختصر سی تصویر آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور پھر قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی کے چند اہم واقعات آپ کے سامنے رکھتا ہوں، اس امید کے ساتھ کہ اس سب سے ہم کچھ سیکھ سکیں اور وطن عزیز کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں، ہم یہ سوال نہ کریں کہ اس ملک نے ہمیں کیا دیا ہے بلکہ ہم خود سے یہ سوال کریں کہ ہم نے اس ملک کے لئے کیا کیا ہے، یقین جانیں پھر یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی کہ کیا ہم آزاد ہیں بھی یا نہیں، ایک صاحب مشتاق احمد لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے وقت میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا ہمارا خاندان ہوشیار پور سے ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا، ہمارے گاؤں کا نام شینکر گڑھ تھا، تحریک پاکستان عروج پر تھی تو بچے بھی چھوٹے چھوٹے جلوس نکالتے تھے، ان جلوسوں میں نعرے لگتے تھے، بٹ کے رہے گا ہندوستان، لے کے رہیں گے پاکستان، پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ، ہندو بچوں کے جلوسوں کو بھی مار کر بھگا دیتے تھے، آج ہندوؤں اور سکھوں کی مسلمانوں سے دشمنی کو یاد کرتا ہوں تو جسم بے جان ہو جاتا ہے، قیام پاکستان کے اعلان کے بعد ہمارا خاندان سترہ یا اٹھارہ اگست کو فیروزپور کے کسی ریلوے اسٹیشن سے ٹرین پر سفر کرتے ہوئے لاہور پہنچا تھا۔

مزید پڑھیں:  بے جے پی کی''کیموفلاج''حکمت عملی