تباہ حال کسانوں کی حالت پر رحم کیجئے

ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق بیج اور کھاد کی قیمتوں میں اضافہ اور پانی کی قلت کی وجہ سے کئی زرعی اضلاع میں کاشت کاروں نے مختلف فصلوں کو کاشت کرنا چھوڑ دیا ہے جس سے آئندہ سال کے لئے پیداوار کم ہونے کا اندیشہ ہے۔نامساعد صورتحال کے باعث اور بیج اور کھادوں کی بڑھتی قیمتوں کے باعث پشاور، مردان، لکی مروت، چارسدہ ، صوابی ، بنوں ، بونیر اور ہری پوراور صوبے کے دیگر علاقوں میں کسان اب فصلوں کی کاشت سے نفع حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں اور مختلف قسم کی فصلوں بشمول گندم کی کاشت میں امسال کمی کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے اس سلسلے میں پشاور کے ارد گرد علاقوں میں چھوٹے کسانوں کے لئے نہری نظام بھی خشک ہونے سے کاشتکاری مزید مشکل ہو گئی ہے ان حالات کے باعث زرعی اراضی کی فروخت ہی واحد راستہ رہ جاتا ہے جس کی طرف کسان متوجہ ہونے پر مجبور ہیں کھاد کی قیمتیں بھی کنٹرول میں نہیں ان مشکلات کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ سال جو کھاد اٹھارہ سو روپے میں تھی اس کی قیمت تقریبا10ہزار روپے ہوگئی ہے۔ ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے کے باعث ٹریکٹر چلانا بھی چھوٹے کاشت کاروں کے لئے ممکن نہیں رہا ۔ ایک جانب غذائی قلت کی صورتحال موسمی شدائد اور ناموافق موسمی حالات کے باعث بڑھتی جارہی ہے اور غذائی اور غذائی اشیاء کی درآمد پر بھاری زرمبادلہ خرچ ہونے سے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سنگین مسئلہ پیش آتا ہے بجائے اس کے کہ زرعی ملک کہلانے والے ملک میں زرعی اصلاحات پر توجہ دی جائے اور خاص طور پر کسانوں کی مشکلات ومسائل کا جائزہ لے کر ان کی مدد ہوتی محولہ قسم کے حالات سے کسی طوراس امر کاا ظہار نہیں ہوتا کہ حکومت اس ضمن میں سنجیدہ ہے یہی وجہ ہے کہ زرعی پیداوار میں اضافہ کی بجائے کمی کے خدشات کو تقویت ملتی ہے جو صورتحال اور مشکلات بیان کی گئی ہیں اگر اس پر اب بھی توجہ نہ دی گئی توکسانوںکے پاس فصل اگانا ترک کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار باقی نہیں رہے گا امید کی جاسکتی ہے کہ نگران حکومت ان مشکلات کا تفصیلی جائزہ لے کر تباہ حال کسانوں کو مشکلات سے نکالنے کے اقدامات کرے گی۔توقع کی جانی چاہئے کہ اس ضمن میں ٹھوس اقدامات اٹھانے سے دریغ کیا جائے گا اور حکومت کسانوں کو رعایتی قیمت پر بیج اور کھاد کی رعایتی قیمت پر فراہمی یقینی بنائے گی اس طرح کرکے ہی ملک میں زرعی پیداوار میں اضافہ ممکن ہوگا اور زرعی اراضی کو غیر اراضی مقاصد کے لئے استعمال سے روکنے کا واحد طریقہ یہی نظر آتا ہے کہ کسان حالات کے باعث اپنی زمینیں فروخت کرنے پر مجبور نہ ہوں۔

مزید پڑھیں:  چھوٹے کام ، بڑا اثر!