کبھی عملی کارروائی کی نوبت بھی تو آئے

ہر سال نتائج کے اعلان کے بعد جو عندیے دیئے جاتے رہے ہیں حسب دستورمحکمہ ابتدائی تعلیم نے میٹرک سالانہ امتحانات کے نتائج میںمایوس کن کارکردگی دکھانے والے سکولزکی انتظامیہ کیخلاف کارروائی کافیصلہ کرتے ہوئے تمام تعلیمی بورڈزکو مراسلہ ارسال کردیاہے جس میں ایک ہفتے کے اندرپچاس فیصد سے کم نتائج دینے والے سکولزکی فہرست طلب کر لی گئی ہے۔امر واقع یہ ہے کہ سرکاری سکولوں کی کارکردگی بد سے بدترین ہوتی جارہی ہے اورگزشتہ ایک عرصہ سے بورڈزکے زیر اہتمام لئے جانیوالے امتحانات میں سرکاری سکولز کے نتائج تسلی بخش نہیں آرہے ہیںتاہم آج تک ایک بھی سرکاری سکول کی انتظامیہ کیخلاف مایوس کن نتائج دینے پر کسی قسم کی کارروائی نہیں کی گئی۔امسال آٹھوں تعلیمی بورڈز کے نویں اوردسویں کے امتحانات کے نتیجے میں بھی حالات تبدیل نہیں ہوئے ،ٹاپ ٹونٹی میں بھی کسی سرکاری سکول کے طالبعلم نے نمایاں پوزیشن حاصل نہیں کی ہے،سرکاری سکولزکے ٹیچرز کی اہلیت اوران کی مراعات قابلیت بھی نجی سکولزسے زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود سرکاری سکولزکے نتائج کارکردگی کے مطابق نہیں آرہے ہیں ۔ماضی کے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں محکمہ تعلیم کا باسی کڑاہی میں ابال لاحاصل اور دکھاوے کی حد تک ہی رہے گا ہر بار کاغذی طور پراس کا اعلان ہوتا ہے مگر محکمہ تعلیم اساتذہ کے دبائو میں آتی ہے اور معاملہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے نجی سکولوں کے نتائج بھی مصنوعی اور ملی بھگت ہی کا نتیجہ ہوتے ہیں ان کا پراپیگنڈہ اور بورڈ میں ملی بھگت کوئی رازکی بات نہیں جس تھوک کے حساب سے نمبر دیئے جاتے ہیں ایسا ممکن ہی نہیں کہ قابل اور محنتی طالب علم بھی اتنے نمبر حاصل کرسکیں کجا کہ تھوک کے حساب سے نمایاں نمبر لئے جائیں ان میں سے بہت کا بھانڈا انٹری ٹیسٹ میں پھوٹ جاتا ہے لیکن اس وقت تک نجی سکولز ان نتائج کی تشہیر کرکے نشستیں پر کر چکے ہوتے ہیں اور والدین بھی کبھی یہ زحمت نہیں کرتے کہ وہ اس امر کا جائزہ لیں کہ آیا نجی سکولز کے طالب علم واقعی اتنے نمبر لینے کے حقدار ہوتے ہیں یا نہیں۔ نجی سکولز ہوں یا سرکاری سکولز ہر دونوں اداروں میں تعلیمی معیار اور پڑھائی کی لٹیا ڈوب چکی ہے یہ عمل من حیث المجموع اصلاح کا متقاضی ہے جس سے قطع نظرمحکمہ تعلیم کے حکام نے نمائشی طور پرجس کارروائی کا آغاز کیا ہے اگر وہ اسے حسب سابق وقتی ثابت کرنے کی بجائے حقیقی معنوں میں احتساب کا موقع بنائیں تو یہ اچھی ابتداء ہوگی ساتھ ہی ان عوامل کا بھی جائزہ لے کر انہیں دور کرنے کی ضرورت ہوگی جوہربار ناکامی کی صورت میں سامنے آتے ہیں مگر ان کا تدارک نہیں کیا جاتا۔

مزید پڑھیں:  معاشرے میں لاقانونیت کیوں بڑھ رہی ہے