دہشت گردی کی نئی لہر’ انتخابی عمل کے خلاف سازش ؟

جمعہ کو بلوچستان میں پسنی اور اوماڑہ میں سکیورٹی فورسز کی 2 گاڑیوں پر دہشت گردوں کے حملے میں 14 اہلکار جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ جمعہ کو ہی ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں ٹانک اڈہ کے مقام پرپولیس وین پر ہونے والے بم حملے میں 6 شہری جاں بحق اور 22 زخمی ہوگئے۔ جمعہ اور ہفتے کی درمیانی شب کے آخری حصہ میں میانوالی میں ایئرفورس بیس پر دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق تین دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا جبکہ دیگر کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ اس حملہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے تحریک جہاد پاکستان نامی تنظیم نے سنسنی خیز دعوے کئے سوشل میڈیا پر اس تنظیم کے مبینہ دعوئوں کے حوالے سے گردش کرتی خبروں کی بدولت ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ بتایا جارہا ہے کہ میانوالی میں پی اے ایف کے ایئربیس پر حملہ رات گئے 2 بجے کے قریب ہوا حملہ آور جدید ترین اسلحہ سے لیس تھے۔ دہشت گرد سیڑھیاں لگاکر ایئربیس کی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے۔ حملہ کی ذمہ داری قبول کرنے والی غیرمعروف تنظیم کا دعویٰ ہے کہ ہمارے فدائین ایئربیس کے اندر موجود ہیں۔ اس حملہ میں کتنا جانی نقصان ہوا اور ایئربیس کی تنصیبات اور جہازوں کو کتنا نقصان پہنچا اس حوالے سے غیرمعروف تنظیم کے دعوے کو آگے بڑھانے کی بجائے اگر آئی ایس پی آر کے اعلامیہ کا انتظار کرلیا جاتا تو یہ نہ صرف بہتر ہوتا بلکہ اس سے غیرضروری بے یقینی کو بھی ہوا نہ ملتی۔ جمعہ کے دن اور پھر جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب پیش آنے والے افسوسناک واقعات سے دہشت گردوں کے مضبوط نیٹ ورک کی نشاندہی ہوتی ہے۔
آئی ایس پی آر کے ایک اعلامیہ میں سوات اور لکی مروت میں کارروائیوں کے دوران 2 دہشت گردوں کی ہلاکت اور 3 اہلکاروں کے جاں بحق ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مسلح افواج اور دیگر ادارے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پرعزم ہیں۔ گزشتہ 60 گھنٹوں کے دوران پیش آنے والے ان افسوسناک واقعات کے حوالے سے بعض تجزیہ نگار یہ کہہ رہے ہیں کہ انتخابی عمل کے لئے پولنگ کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی ملک کے 3 صوبوں میں دہشت گردی کے بڑے واقعات سے ان خدشات کو تقویت ملی ہے کہ کچھ طاقتیں پاکستان میں جمہوری عمل کو آگے بڑھتا ہوا نہیں دیکھ سکتیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصہ سے یہ خدشات ظاہر کئے جارہے تھے کہ جونہی ملک میں عام انتخابات کے لئے حتمی تاریخ کا اعلان ہوگا دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ بعض تجزیہ نگار پچھلے طویل عرصہ سے کالعدم ٹی ٹی پی کے اس اعلامیہ کی طرف متوجہ کرتے آرہے تھے جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں شرعی نظام کے نفاذ کے لئے ضروری ہے کہ شریعت سے متصادم جمہوری عمل اور نظام کے خلاف کھلی جنگ کی جائے۔ گو کہ رواں برس جولائی میں ہی کالعدم ٹی ٹی پی نے اس اعلامیہ کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا مقصد عام لوگوں کو نشانہ بنانا نہیں لیکن عملی طور پر یہ ثابت ہوا کہ کالعدم ٹی ٹی پی سمیت دیگر مسلح تنظیمیں سکیورٹی فورسز، دفاعی تنصیبات، حساس مقامات اور شہریوں پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں وضاحتی بیان صرف عوام کو گمراہ کرنے کے لئے جاری کیا گیا۔ یہ امر بجا طور پر غور طلب ہے کہ ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے اگلے 24سے 48 گھنٹوں کے دوران دہشت گردی کی سنگین وارداتوں کو انتخابی عمل کے خلاف جنگ کا آغاز کیسے نہ سمجھا جائے؟ بظاہر ان خدشات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی کالعدم عسکری تنظیموں کے دہشت گرد ملک میں بدامنی پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔
اندریں حالات بہت ضروری ہے کہ دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں کا تجزیہ اور تحقیقات کے عمل میں تمام پہلوئوں کو بطور خاص مدنظر رکھا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس امر کو بھی یقینی بنایا جائے کہ انتخابی شیڈول کے اعلان کے بعد شروع ہونے والی انتخابی مہم کو سبوتاژ کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہونے پائے۔ اس امر پر دو آراء ہرگز نہیں کہ مختلف الخیال دہشت گرد گروپس میں کم از کم اس امر پر اتفاق ہے کہ ملک میں بدامنی کو بطور خاص بڑھاوا دیا جائے تاکہ ایک طرف امن و امان متاثر ہو دوسری جانب تعمیروترقی کے اہداف کے حصول کی رفتار سست رہے اور یہ بھی کہ عوام الناس اور ریاست کے درمیان بداعتمادی کی خلیج وسیع ہو تاکہ ان دہشت گردوں کے ہم خیال عناصر اس بڑھتی ہوئی بداعتمادی سے فائدہ اٹھاسکیں۔ گزشتہ 60 گھنٹوں میں دہشت گردی کے جو چار واقعات رونماء ہوئے ان کی سنگینی اور رونماء ہونے کے وقت ہر دو کو بہرصورت مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری دانست میں اس خدشے کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ دہشت گردوں کے مختلف گروپ ملک میں بدامنی کو ہوا دے کر اپنے بیرونی آقائوں کے ایجنڈے کو ااگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔ دہشت گرد اور ان کے بیرونی آقا پاکستان میں سیاسی و معاشی استحکام کو اپنے مذموم عزائم میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس خدشے کا بھی کئی ماہ سے اظہار کیا جارہا تھا کہ جونہی عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوا دہشت گرد ملکی سلامتی امن اور سکیورٹی فورسز و عوام پر حملہ آور ہوں گے۔ حالیہ چار واقعات نے نہ صرف ان خدشات کے درست ہونے کی تصدیق کردی ہے بلکہ یہ عرض کرنا بھی انتہائی ضروری ہوگیاہے کہ ان حالات میں حکومت سکیورٹی فورسز دوسرے اداروں اور سیاسی جماعتوں سب کو متحد ہوکر امن و جمہوریت اور پاکستان کے خلاف سرگرم عمل بداطوار دہشت گردوں اور ان کے آقائوں کی سازشوں کو ناکام بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھنی چاہیے۔ نیز یہ کہ وفاقی او صوبائی حکومتوں کو بھی چاہیے کہ امن و امان کے قیام اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے ساتھ حساس مقامات کی حفاظت کے لئے تمام تر دستیاب وسائل بروئے کار لائیں۔ ہم اس امر کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری خیال کرتے ہیں کہ افغانستان سے دہشت گردوں کی آمد اور اہداف کے حصول کے لئے ان کی کارروائیوں کی روک تھام کے لئے موثر حکمت عملی وضع کی جائے یہی نہیں بلکہ ملک کے اندر ان کالعدم تنظیموں کے ہم خیالوں اور سہولت کاروں کے خلاف بھی قوانین کے مطابق کارروائی کی جائے تاکہ آنے والے دنوں میں ایسے افسوسناک واقعات نہ ہونے پائیں۔ یہ امر بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ اب جبکہ ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوگیاہے تو حکومت اور معاون ماتحت محکموں و اداروں کا فرض ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ انتخابات کے التواء کے لئے کی جانے والی ہر سازش ناکام بنادی جائے اور عوام مقررہ وقت پر اپنی قیادت کا آزادانہ طور پر انتخاب کرسکیں۔

مزید پڑھیں:  عدلیہ پردبائو؟