جنگ بندی کی کوششوں کی ناکامی

اردن میں عرب ممالک کے وزرائے خارجہ کی گول میز کانفرنس میں عرب ممالک نے متفقہ طور پر غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا۔ جس پر امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اسرائیل کی کھل کر حمایت کرتے ہوئے عرب ممالک کے جنگ بندی کے مطالبے کو نہ صرف مسترد کر دیا بلکہ اسرائیل کی حوصلہ افزائی بھی کر دی۔ انٹونی بلنکن نے مزید کہا کہ اس وقت غزہ میں جنگ بندی کی گئی تو اس سے حماس کو دوبارہ منظم ہونے اور نئے حملے کرنے کا موقع مل جائے گا تاہم امدادی سامان کی ترسیل اور غیر ملکیوں کے انخلا کے لیے جنگ میں وقفے کے حامی ہیں۔ مشترکہ پریس کانفرنس میں مصری وزیر خارجہ نے غزہ میں غیر مشروط اور فوری جنگ بندی کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی برادری کی ہمیشہ یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تنازعات میں کشیدگی کے خاتمے کیلئے کردار ادا کرے نہ کہ تشدد میں اضافے کی حمایت کرے۔دریں اثناء نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ انتہا پسند اوزما یہودیت پارٹی سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی وزیر نے کہا ہے کہ غزہ جنگ جیتنے کے لیے اسرائیلی فوج کے پاس کئی آپشنز ہیں جن میں آخری اور حتمی اقدام ایٹم بم گرانا ہے۔یہودی انتہا پسند وزیر کے خیالات سے اس امر کا واضح اظہار ہوتا ہے کہ صرف ایک ماہ کی جنگ میں ساری طاغونی طاقتوں کی مدد کے باوجود ناکامی اورمایوسی اب اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ تمام ترجدیداسلحہ و گولہ بارود ‘ جدید ترین ٹینک اور قالینی فضائی بمباری کے باوجود اسرائیل کے حصے میں مایوسی اور ناکامی کے کچھ نہیں آیااس کے سوائے اس کے کوئی او رجہ نہیں کہ معصوم شہری اور مجاہدین نے استقامت اور صبر کی قرون اولیٰ کی یاد تازہ کردی ہے ان کاعزم جہاد و شہادت ہی وہ موثر ہتھیار ہے جس کا طاغوتی قوتوں کی آلہ کار ریاست کے پاس کوئی توڑ نہیں افسوس اس بات کا ہے کہ مسلم ریاستیں و حکومتیں اور حکمران جس بے حسی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس سے خون مسلم کی ارزانی ہو رہی ہے بعض اسلامی ممالک محض زبانی کلامی دھمکی دے رہے ہیں اورعملی طور پر کوئی مدد نہیں ہو رہی ہے بعض کو تواس کی بھی توفیق نہیں اور وہ بری طرح مصلحت کا شکار ہیں اس کے باوجود دنیاوی وسائل اور آلات حرب سے بے نیاز مجاہدین صیہونی ریاست کا جس طرح مقابلہ کر رہے ہیں ان کی مزاحمت استقامت اور شجاعت ناقابل یقین ہے صورتحال دیکھ کر اور ان کی غیبی مدد کا یقین آنے لگتا ہے ۔ اسرائیل بوکھلاہٹ میں ہسپتالوں ‘ کیمپوں اور شہری آبادی کونشانہ بنا رہا ہے اور مجاہدین کے خلاف ان کو کوئی کامیابی نہیں مل رہی ہے یہاں تک کہ ابھی تک مصروف پیکار کسی ایک مجاہد کی گرفتاری کاکوئی ثبوت نہیں ۔ مزاحمت اور دفاع کے طول پکڑنے پر صیہونی ریاست کی جانب سے فاسفورس بم کے استعمال کے بعد اب اٹیم بم چلانے کی دھمکی دی جارہی ہے دنیا کو اس پھیلتے جنگ اور مظلوم انسانیت سے کوئی ہمدردی اور سروکار نہیںاگر ایسا ہوتا تو کم ازکم جنگ بندی ہی پر زور دیا جاتا اور اس کی کوشش کی جاتی دنیا میںجہاں بھی جنگ چھڑتی ہے اقوام متحدہ اور عالمی برادری اولین طور پر جنگ بندی کرانے کی سعی کرتی ہے لیکن اسرائیلی حکومت پر ابھی تک اس سلسلے میں دبائو ڈالنے کی بجائے لڑائی جاری رکھنے میں مدد کی جارہی ہے ۔ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا دوسرا ماہ شروع ہواہے اس دوران اسرائیل کی جانب سے رہائشی عمارتوں ہسپتالوں اور پناہ گاہوں جیسے عوامی مقامات کو نشانہ بنانے سے ظاہر ہے کہ اسرائیل حماس کے خلاف مطلوبہ اہداف کے حصول میں بری طرح ناکامی کا شکار ہے جن یرغمالیوں کی رہائی کو اس ظالمانہ جنگی کارروائی کاجواز قراردیاگیا ہے اس میں سے ایک فرد کو بھی آزاد کرانے میں ان کوکامیابی نہیں مل سکی ہے غزہ میں اسرائیل کو پیدل دستے اتارنے کی ہمت نہیں ہو رہی ہے بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں میں بیٹھ کر آنے والوں کو مسکت جواب مل رہا ہے اسرائیل کو ظلم کی آخری حد تک پہنچ کر بھی مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہو رہے ہیں اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی پر عدم رضا مندی سے خدشہ ہے کہ یہ کشیدگی مزید طول پکڑے گی اور اس کے پھیلنے کا بھی خدشہ ہے فلسطینیوں کی تو نسل کشی ہو رہی ہے لیکن اس کے اثرات سے اسرائیل اور اس کے پشتی بان بھی زیادہ عرصہ محفوظ نہیں رہ سکیں گے ۔ صورتحال کا جوں کا توں رہنا بڑی بدقسمتی ہوگی اگرچہ فلسطینی علاقے کے باشندے اور یہودی آباد کار ہیں لیکن آباد کار مستقل باشندوں کی نسل کشی اور ان کو مٹانے کے درپے ہیں اصولی طور پر تو مداخلت کاروں کوعلاقہ چھوڑ دینا چاہئے یا پھر کم ازکم د وریاستی حل ہی کی طرف رجوع کیا جائے بہرحال اب کسی بھی معقول تجویز اور اس پرعملدرآمد کی کوئی امید نہیں لیکن اسرائیل اور ان کے سرپرستوں کویہ نہیں بھولنا چاہئے کہ وہ پوری قوت وطاقت لگا کر بھی فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے نہیں مٹا سکتے اور گریٹر اسرائیل کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا توکجا بالاخر مظلوم مسلمانوں کی فتح کا سورج کبھی نہ کبھی طلوع ہونا ہے دیر یا بدیر حالات میں تبدیلی آسکتی ہے او کمزوروں کی فتح کا سورج دوبارہ سے دیر یا بدیر بہرحال طلوع ہو کر رہے گا۔

مزید پڑھیں:  حد ہوا کرتی ہے ہر چیز کی اے بندہ نواز