نیا ” پھواڑہ”کس لئے ؟

الیکشن شیڈول کے اعلان اور انتخابی عمل کے آغاز کے بعد پاکستان بار کونسل ، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ اور پنجاب بار کونسلز کے جاری کردہ بیانات میں چیف الیکشن کمشنر سے مستعفی ہونے کامطالبہ نہ صرف عجیب ہے بلکہ اس مطالبہ پر سوال کیا جارہاہے کہ وکلاء تنظیموں نے کس کے کہنے پر یہ مطالبہ کیا؟۔ تحریک انصاف کے سینئر رہنماء حامد خان ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ لگتا یہی ہے کہ وکلاء تنظیمیں کسی کے اشارے پر ایسا کررہی ہیں۔ ملک کی چار بڑی بارز کے اعلامیوں کے مطابق حلقہ بندیاں انتخابی طریقہ کار اورنشستوں کی تقسیم غیرمصنفانہ ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ انتخابات بروقت اور آزادانہ ہونے چاہئیں۔ سب کو لیول پلیئنگ فیلڈ ملنا چاہیے۔ یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ سپریم کورٹ ان تضادات کا نوٹس لے۔ چیف الیکشن کمشنر پر اپنے ضلع میں دو حلقے بنانے کاالزام لگایا گیا جس کی الیکشن کمیشن نے تردید کردی۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن)اورپی ٹی آئی نے وکلا ء تنظیموں کے مطالبات کو مسترد کردیا۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر سید علی ظفر کا کہنا تھا کہ مطالبہ درست ہے لیکن اس کا وقت غلط ہے۔ پی پی پی کا کہنا ہے کہ اس سے الیکشن کے التواء کا جواز میسر آجائے گا۔ مسلم لیگ(ن)کے مطابق الزامات مبہم ہیں۔ وکلاء تنظیموں نے مطالبات تسلیم کرانے کیلئے مشترکہ جدوجہد کی ضرورت کے پیش نظر پاکستان وکلاء کنونشن کے انعقاد کا اعلان کیاہے۔ ادھر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کا کہنا ہے کہ بیان میری تائید کے بغیر جاری کیا گیا۔ چار بڑی وکلاء تنظیموں کے اعلامیوں اور ان میں کئے گئے مطالبات کے حوالے سے یہ بھی کہا جارہاہے کہ تحریک انصاف کے وکلاء کی جانب دائر درخواست کی لاہور ہائیکورٹ میں منظوری کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ اور عدالتی حکم پر الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد بار کونسلوں میں پی ٹی آئی کے حامی وکلاء الیکشن کے التوا کیلئے ہرممکن اقدام اٹھانے کا فیصلہ کرچکے ہیں اور اس فیصلے کو جیل میں بند پی ٹی آئی کے بانی سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان کی مکمل تائید حاصل ہے۔ اس رائے کے حاملین کا دعوی ہے کہ حامد خان اور علی ظفر کے اعلامیہ مخالف بیانات لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اگر مذکورہ اعلامیہ سابق وزیراعظم عمران خان کی رضامندی سے جاری نہ بھی ہوئے ہوں تو بھی یہ سوال اہم ہے کہ دستور و قانون کی سوجھ بوجھ رکھنے والے وکلاء رہنمائوں نے اس مرحلہ پر یہ مطالبات کیوں کئے جب الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد کاغذات نامزدگی حاصل اور جمع کرانے کے سلسلے کا آغاز ہوچکا ہے۔ بظاہر وکلاء تنظیموں کے اعلامیوں میں کوئی نئی بات اور شواہد موجود نہیں انتخابی عمل کے مختلف مراحل اور چیف الیکشن کمشنر کے حوالے سے یہی مؤقف تحریک انصاف کا ہے یہ وہ نکتہ ہے جس سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ ان اعلامیوں کو عمران خان کی تائید حاصل ہے والی بات میں وزن ہے۔ اس کی بڑی وجہ تحریک انصاف کے حالیہ دنوں میں حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن پر لگائے جانے والے سخت الزامات ہیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت اور اس کے حامی وکلاء یہ سمجھتے اور اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ملک میں ایسے حالات بنادیئے گئے ہیں جن میں پی ٹی آئی کا انتخابی عمل میں آزادانہ طور پر شریک ہونا ناممکن ہوگیا ہے۔ گزشتہ سے پیوستہ روز پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن پر الزام لگایا تھا کہ اس کے ضلعی آفیسرز تحریک انصاف کے امیدواروں، تجویز و تائید کنندگان کو ووٹر سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے لیت و لعل برت رہے ہیں۔ پی ٹی آئی جس نے اپنے دورمیں بقول عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے تجویز کرنے پر موجودہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کی تھی اقتدار کے آخری ہفتوں میں اسی چیف الیکشن کمشنر پر نہ صرف کڑی تنقید کرتی رہی بلکہ اس کا موقف تھا کہ راجہ سکندر(ن)لیگ کے سہولت کار ہیں وزارت عظمیٰ سے الگ ہونے کے بعد عمران خان تواتر کے ساتھ چیف الیکشن کمشنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے رہے۔ عدلیہ سے ڈی او آرز و ڈپٹی ڈی او آرز نہ ملنے پر انتظامیہ سے عملہ حاصل کرنے کے خلاف تحریک انصاف تین صوبائی ہائیکورٹس (سندھ، خیبر پختونخوا اورپنجاب)میں ان ڈی اوآرز کو ہٹانے کی درخواست لے کر گئی۔ پی ٹی آئی کی درخواست پر لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس علی باقر نجفی کے فیصلے سے لگ رہا تھا کہ الیکشن مقررہ وقت پر نہیں ہوں گے۔ اس فیصلے کے بعد سپریم کورٹ نے نہ صرف لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے اسے اختیار اور حدود سے تجاوز قرار دیا تھا بلکہ الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ کسی تاخیر کے بغیر انتخابی شیڈول کا اعلان کیا جائے۔ ان حالات میں چار بڑی وکلاء تنظیموں کے اعلامیوں میں کئے گئے مطالبات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ امر دوچند ہوجاتاہے کہ اگر ان مطالبات کی کسی سطح پر پذیرائی ہوتی ہے تو پھر انتخابات مقررہ وقت پر منعقد نہیں ہوسکیں گے۔ وکلاء رہنمائوں نے غالباً انتخابات کے حوالے سے عالمی مالیاتی اداروں کو کرائی گئی یقین دہانیوں کے ساتھ اس امر کو بھی مدنظر نہیں رکھا کہ امریکہ نے بارڈر مینجمنٹ کے لئے جو ساڑھے چار ارب ڈالر دینے تھے اس کی ادائیگی یہ کہہ کر روک لی کہ یہ امدادی رقم منتخب حکومت کو دی جائے گی۔ یہاں اہم ترین سوال یہ ہے کہ گزشتہ روز اعلامیہ جاری کرکے انتخابات کے وقت پر انعقاد پر ابہام پیدا کرنے والے وکلاء رہنما ان مسائل اور مطالبات کو لے کر قبل ازیں الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کیوں نہیں گئے؟ الیکشن کمیشن کے ترجمان نے کسی جماعت یا پروفیشنل تنظیم کی بلیک میلنگ میں نہ آنے کا اعلان کرتے ہوئے آئین و قانون کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی پر توجہ مرکوز رکھنے کا کہا ہے۔ بہرطور یہ امر اپنی جگہ درست ہے کہ وکلا تنظیموں کے مطالبات اگر درست بھی ہوں تو بھی بقول پی ٹی آئی سینیٹر سید علی ظفر ان مطالبات کا وقت درست نہیں۔ اس حوالے سے یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا یہ مطالبات اس پروگرام کا حصہ ہیں کہ اگر انہیں تسلیم نہیں کیا جاتا تو پی ٹی آئی انتخابات کا بائیکاٹ کردے؟ ہمارے خیال میں اگر کہیں فیصلہ ہوچکا یا اس کیلئے صلاح مشورے جاری ہیں تو انتخابات کا بائیکاٹ گھاٹے کا سودا ہوگا۔ ماضی قریب میں ایم کیو ایم نے جذباتی انداز میں سندھ کے بلدیاتی انتخابات کے آخری مرحلے کا بائیکاٹ کیا تھا اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ پیپلزپارٹی 1985 کے غیرجماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے ایم آر ڈی کے فیصلے پر عمل کو اگلے برسوں میں اپنی سیاسی تاریخ کا سب سے برا فیصلہ قرار دیتی رہی۔ پی ٹی آئی کی سیاسی قیادت کو بھی کسی کے جھانسے میں نہیں آنا چاہیے ہر صورت اور ہر قیمت پر انتخابی عمل میں شرکت کرنا چاہیے اپنے ووٹروں کو ذہنی طورپر تیار کرنا چاہیے کہ وہ ہر قسم کے دبائو کو مسترد کرکے پولنگ سٹیشنوں پر پہنچیں تاکہ انتخابی عمل چوری ہونے کا کوئی راستہ کسی کو بھی کھلا نہ ملے۔ اس مرحلہ پر ہم وکلاء تنظیموں سے بھی درخواست کریں گے کہ وہ ایسا قدم نہ ا ٹھائیں جس سے کسی کو انتخابات ملتوی کرنے کا جواز ملے۔ امید ہے کہ ان معروضات پر جمہوریت اور عوام کے مفاد میں غور کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  ایرانی گیس پاکستان کے لئے شجرِممنوعہ؟