ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح

میلوں ٹھیلوں کا رواج صدیوں سے قائم ہے ‘ان کی ابتداء کب ہوئی وثوق توکچھ بھی نہیں کہا جا سکتا، تاہم ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ جب حضرت انسان نے انفرادی زندگی سے آگے بڑھ کر اجتماعی طور پر خاندانوں گروہوں ‘ قبیلوں کی شکل میں رہنا شروع کیا تو ان کے مفادات سے سانجھے ہو گئے ‘ خصوصاً جب انہوں نے ایک جگہ سے دوسری جگہوں کا سفر اختیار کر کے ایسی سرسبز و شاداب علاقوں میں مستقل سکونت اختیار کی جہاں گزر کرنے کے لئے انہوں نے کھیتی باڑی کا سہارا لیا’ اور ہر بار جب ہرے بھرے کھیتوں سے شاندار فصل حاصل ہوتی تو ان مواقع پر وہ خوشی کا اظہار کرتے ، مختلف قسم کے سوانگ بھرتے ، رقص و موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ‘رات گئے تک بڑے بڑے میدانوں میں الائو جلا کراس کے گرد و فور مسرت سے بے خودی کی کیفیت میں جھومنے لگتے’ یہ سلسلہ سال میں کم از کم دوبار جب موسموں کے تغیر و تبدل کے حوالے سے فصلیں پک کر تیار ہوتیں تو اجتماعی طور پر خوشیاں منائی جاتیں’ اس صورت میں آبادی میں اضافے اور ان کی ضروریات کے لئے زیادہ سے زیادہ زمینوں کے حصول کے لئے ہمسایہ علاقوں میں آباد قبیلوں اور علاقوں پر تصرف کے لئے مبارزت کا آغازہوا ، کمزور قبیلوں پر یا تو فتح کے بعد ان کو غلامی کے شکنجے میں جکڑ لیا جاتا ‘ یا پھر ان کے علاقوں پر قبضے کے بعد انہیں وہاں سے کوچ کرنے پر مجبور کر دیا جاتا’ اور ان جنگوں میں کامیابی کی صورت میںجشن منانے کی روایت نے ہر حال خوشی کی تقریبات کی شکل میں ڈھلنا شروع کر دیا ‘ ان مواقع پر میلوں ٹھیلوں کے انعقاد نے روایتی شکل اختیار کرلی، اب دنیا بھر کی اقوام ہر سال یا سال میںایک سے زیادہ بار خوشی کی تقریبات مناتی رہتی ہیں’ جن میں سے کچھ تو معاشرتی واقعات سے منسوب کی جاتی ہیں اور کچھ تاریخی واقعات کے تناظر میں بتدریج نئی صورتیں اختیار کرتی چلی گئی ہیں’ سوشل میڈیا نے ان تمام تقاریب کو مقامی سطح سے اٹھا کر عالمی سطح پر دوسرے مالک تک بھی پوری تفصیل سے پہنچانا شروع کر دیا ہے’ اور آپ نے اکثر مغربی ممالک میں ایسے میلوں ‘ٹھیلوں اور تقاریب کو دیکھا ہوگا جو ان مالک کے بڑے بڑے شہروں کی بڑی بڑی شاہراہوں پر عظیم الشان جلوسوںکی صورت نکالتے ہیں اور کارنیوال کی شکل میں ان کے اندر مختلف سوانگ بھرے ہوئے لوگ پیدل جبکہ لمبے لمبے ٹرکوں کے اوپر قوی الحبشہ کردار کرتب دکھاتے ہوئے سڑکوں کے کنارے کھڑے لوگوںکو محفوظ کرتے ہیں’ ہمارے خطے میں بھارت میں ہولی اور دیوالی کے مواقع پر ہندوتوا کی تاریخ کے بعض کرداروں کے سوانگ بھرے مجسموں پر مبنی جلوس نکالے جاتے ہیں، ہندوئوں کی اہم تاریخی کتابوں رامائن’ مہا بھارت اور بھگوت گیتا میں بعض تاریخی واقعات میں سے کچھ کرداروں پر مبنی کہانیوں میں آج بھی بھارت کے طول و عرض میں سٹیج ڈراموں، فلموں وغیرہ میں ان کہانیوں اور ان سے جڑے کرداروں کی جھلک نظر آتی ہے’ سیتا اور رام کی کہانی میں راکھشس کا کردار راون ہے، جو رام کی گھر پر عدم موجودگی سے فائدہ اٹھا کر سیتا کو اغوا کر لیتا ہے اور پھر رام کو اسے بازیاب کرانے کے لئے طویل جدوجہد کرنا پڑتی ہے’ اس کہانی میں لنکا کی راجدھانی کو”گرانے” کے لئے بندر کی شکل کا ایک کردار”ہنومانی” اہم کردار ادا کرتے ہوئے برصغیر کوایک محاورہ بھی دے گیا یعنی ”گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے” کہ اس کہانی میں اس کردار کو توقیر بخشتے ہوئے ”مہا راج” کے نم سے یاد کیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے بھارت کے کسی بھی علاقے میں بندروں کی”چیرہ دستیوں” سے کوئی تعرض نہیں رکھاجاتا ‘ اسی طرح دیوالی (جسے بھارت میں اب دیوپالی کہا جاتا ہے) کے مواقع پر راون کے کردار کو تیروں سے چھلنی کرکے آگ لگائی جاتی ہے اور اسے اس طرح کیفرکردار تک پہنچایا جاتا ہے ‘ اور پٹاخے چھوڑ کر ‘ شمعیں جلا کرخوشی کا اظہار کیا جاتا ہے ہولی کے موقع پرایک دوسرے پر رنگ پھینکے جاتے ہیں ‘ ایک نظریہ ‘ یہ بھی ہے کہ دیوالی کی تہوار دراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نمرود کی جانب سے آگ میں جھونکے جانے کی یاد میں منائی جاتی ہے ‘ حقیقت کیا ہے اللہ بہتر جانتاہے’ بھارت میں ایک میلہ کنبھ کابھی ہے جس کے حوالے سے کئی فلموں میں اس میلے کے دوران اکثر ماں باپ اپنے بچوں سے بچھڑ جاتے ہیں اور بڑی مدت بعد کسی خاندانی طورپرایک ساتھ گائے ہوئے گانے کی بدولت ایک بارپھر مل جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی میلوں ٹھیلوں کا رواج عام ہونے کے ساتھ بعض مقدس واقعات کے حوالے سے بھی یاد گار تقاریب کا اہتمام عام بات ہے’ تاہم اس حوالے سے جہاں سنجیدہ نظریات موجود ہیں وہاں کچھ دلچسپ اور مزاحیہ قصے کہانیاں بھی بہت مشہور ہیں ‘ مثلاً ایک لطیفہ نما روایت یہ ہے کہ ایک بار شہر میں ایک میلہ لگا جو کئی روز تک جاری رہتا تھا ‘ ایک شخص اس کی تعریف سن کر جو اسی کے گائوں کے ایک دوسرا شخص میلے سے لطف اندوز ہونے کے بعد گائوں کی چوپال میں بیٹھ کر مزے مزے سے میلے کے بارے میں داستان طرازی کرتے ہوئے سنا رہا تھا ‘ اگلے روز بس میں بیٹھ کر میلے سے حظ اٹھانے کے لئے چل پڑا ‘سارا دن میلے میں گھومتا رہا ‘ خوش ہوتا رہا ‘ مگراسے یاد ہی نہیں رہا کہ گائوں کی آخری بس کے جانے کاوقت گزر گیا ہے’دیر سے احساس ہوتے ہی بس اڈے کی طرف دوڑا مگر بس توکب کی جاچکی تھی’ ناچار رات کا کھانا کھا کر قریب ہی کسی دکان کے تھڑے پر چادر تان کر سو گیا ‘ ہلکی ہلکی سردی تھی ‘ تھکا ہارا جلد ہی اس کی آنکھ لگ گئی علی الصبح ٹھنڈ محسوس ہونے پراس کی آنکھ کھلی تو اس کی چادر غائب تھی ‘ یعنی رات کے کسی سمے کوئی اچکا اس کی چادر ہی اڑا چکا تھا ‘ بہت خفا ہوا ‘ ادھرادھر دیکھا کہ شاید کوئی ٹھنڈ کا مارا اس کی چادراوڑھے ہوئے نظر آئے مگر چور تو کب کا اپنا کام دکھا کر وہاں سے گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو چکا تھا ‘ ناچار پہلی بس پر بیٹھ کر گائوں واپس آگیا ‘شام کو دوستوں کے جمگھٹے میں میلے کی بارے میں کوئی پوچھتا تو کہتا ‘ چھوڑویار ‘ میلہ ویلہ کیا تھا ‘ یہ تو میری چادر کی چوری کے لئے منایا جارہا تھا ‘ بقول شاعر
یہ کیا کہ سورج پہ گھر بنانا
اور اس پہ چھائوں تلاش کرنا
کھڑے بھی ہونا تو دلدلوں پر
پھراپنے پائوں تلاش کرنا
نکل کے شہروں میں آبھی جانا
چمکتے خوابوں کو ساتھ لے کر
بلند وبالا عمارتوں میں
پھر اپنے گائوں تلاش کرنا
ان دنوں ہماری سیاست کا جو حال ہے’ اس پر اسی میلے کا گمان ہو رہا ہے جس میں ایک دیہاتی کی چادر چوری ہوگئی تھی ‘ نئے سیاسی اتحادوں کی تجسیم، سیٹ ایڈجسٹمنٹ، حالیہ ماضی کے سیاسی دوستوں کی ایک دوسرے کے خلاف صف آرائی، ایک دوسرے کے الیکٹیبلز کو اپنی صفوں میںشامل کرنے کی شرمناک کارستانیاں ‘انہیں ”سیاسی پٹی”پہنانا اور ایک دوسرے پر سیاسی بیانات کے ذریعے حملہ آورہونا دراصل اس دیہاتی کی مانند عوام کی چادر چوری کرنے کی کوششوں کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہیں ‘اور یہ سیاسی میلہ ختم ہوتے ہی عوام کو جلد ہی احساس ہو جائے گا کہ ان تمام مبینہ سیاسی دزدوں نے دراصل ان کے ہاتھ سے وہ چادر اچک لی ہے جو ووٹ کی شکل میں ان کی ملکیت تھی اور کم از کم پانچ سال تک یہ چادر پھر ان کے ہاتھ نہیں آنی کیونکہ عوام کی آنکھ تب کھلے گی جب انتخابات کے عمل سے گزرتے ہوئے اور نتائج سامنے آنے کے بعد آج کے بظاہر ”حریف” ایک بار پھر انگلیوں سے وی (وکٹری) کا نشان بناتے ہوئے اسمبلیوں کے فلورز پر ایک دوسرے سے بغلگیر ہوتے اور سر جوڑ کر ایک بار پھر گٹھ جوڑ کرتے حکومتوں کی تشکیل میں گرمجوشی سے مشغول دکھائی دیں گے’ تب آج کے ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگانے اور بعض صورتوں میں رکیک حملے تک یہ بھول چکے ہوں گے اگر تو کسی جماعت کو انفرادی طور پر اتنی نشستیں ملی ہوں گی کہ وہ بغیر کسی دوسری جماعت کے ساتھ اتحاد کئے حکومت سازی کر سکے تو ٹھیک وگرنہ آج کے مخالف جماعتوں کو ملا کر حکومت سازی میں بھی انہیں کوئی تردد نہیں ہو گا، یہ بھی ممکن ہے کہ مرکز میں تو یہ سمپل میجارٹی میں ہوں مگر صوبوں میں ایسی کسی حیثیت کی حامل نہ ہونے کی وجہ سے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر اتحادی حکومت بنانے کے مفادات کی وجہ سے بہ امر مجبوری ایسی جماعت صوبوں میں حصہ بقدر جثہ حاصل کرنے کی مجبوری کے تحت مرکز میں اتحادی جماعتوں کوبھی حصہ دینے پر مجبور ہوجائے ‘ یعنی
جب جھومے میرا گاگرا
توجھومے دلی آگرہ
تواے میری قوم کے غریب ووٹرو ‘ تمہیں ویسے ہی سیاسی زبان میں عوام کالانعام کے نام سے یاد نہیں کیا جاتا ‘ اگرچہ شاد رامپوری نے بھی ملکی سیاست کے بارے میں کہا تھا کہ
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی طوائف تماش بینوں میں
مگراس میں قصور عوام کالانعام کا اپنابھی ہے جن کے بارے میں مجروح سلطانپوری یوں گویا ہوئے
ہم ہیںمتاع کوچہ و بازار کی طرح
اٹھتی ہے ہرنگاہ خریدار کی طرح
رہے علامہ ا قبال تو ان سے بڑے نباض اس قوم کے اور کون ہو سکتے ہیں جنہوں نے جمہوریت کے بارے میںجو کچھ کہا وہ تاریخ کے صفحات پرانمٹ نقوش کی مانند چمک رہا ہے یعنی
گریز از طرز جمہوری، غلام پختہ کاری شو
کہ از مغز دو صد خر فکر انسانی نمی آید
انہوں نے ہندوستانی قوم کو مخاطب کرکے یہ بھی تو کہا تھا کہ
نہ سمجھوگے تو مٹ جائو گے اے ہندوستان والو
تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
ہم مگر مجبور ہیں’ ہم میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے”سیاسی خدا” تراشے ہوئے ہیں اور ہر پانچ سال بعد منعقد ہونے والے ”کنبھ” کے میلے میں انہیں آشیرواد دے کر ایک دوسرے سے بچھڑ جاتے ہیں ہماری چادر ہم سے چھین کر”مفاد پرست” وکٹری کے نشان بناتے ہیں ‘ اور ہم بے بسی سے انہیں تلاش کرتے رہتے ہیں ‘ اور ایک انگریزی مقولے کے مطابق ”اکثریت کی آمریت” ‘ جمہوریت بن جاتی ہے بقول شاہد عشقی
اے ہم زبان شوق وہ منزل کدھر گئی؟
ہم دور آگئے ہیں جسے ڈھونڈتے ہوئے

مزید پڑھیں:  ایرانی گیس پاکستان کے لئے شجرِممنوعہ؟