فریادکچھ توہو!

ملک میں بجلی ،گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کی پالیسی کے تناظر میں اگر جائزہ لیا جائے تو گیس اور بجلی کے بلوں کی پکار اردو زبان کے ایک روز مرہ کی طرح” تو چل، میں آیا” کہ تفسیر دکھائی دیتی ہے ،جبکہ تیل مصنوعات میں اتار چڑھاؤ اس پر مستزاد ہوتے ہیں ،ابھی گزشتہ روز ہی گیس کے نرخوں میں اضافہ کارونا انہی کالموں میں رویا گیا اور زائد بلوں کے ساتھ ساتھ گیس کی عدم دستیابی پر عوامی نقطہ نظر سے روشنی ڈالی گئی کہ اچانک بجلی کے بھاری بھرکم بلوں کی وصولی کے حوالے سے خبریں سامنے آگئی ہیں، باوجود یہ کہ سردی کی وجہ سے بجلی کا عمومی استعمال کم ہو جاتا ہے مگر بلوں میں کمی کی کوئی صورتحال دکھائی نہیںدیتی اور اضافی نرخوں کی وجہ سے بلوں کی مد میں عوام کو کسی قسم کا ریلیف نہیں مل رہا ،حالانکہ اصولی طور پر جب بجلی کا استعمال کم ہو جاتا ہے( سردیوں کی وجہ سے) تو بل کم ہونے چاہئیں لیکن یہاں معاملہ بالکل الٹ ہے اور سردی میں بھی بجلی بل سکڑنے کی بجائے اضافہ کے ساتھ وصول ہو رہے ہیں ،اس حوالے سے عالمی بینک نے ابھی حالیہ دنوں میں بجلی کے نرخوں میں مزید اضافے سے گریز کا جو مشورہ دیا تھا اسے بھی نظر انداز کر کے عوام پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  چوری اور ہیرا پھیری