سیاسی جماعتوں کے ناقابل عمل منشور

چیئرمین پیپلزپارٹی اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے 10 نکاتی منشور کا اعلان کرتے ہوئے بہت بڑا دعویٰ کیا ہے کہ غریبوںکے لئے 300 یونٹ تک بجلی اور علاج کی سہولت مفت فراہم کریں گے اور30لاکھ گھر بنا کر دیں گے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ ہماری حکومت بنی توہر بچے کو تعلیم تک رسائی حاصل ہوگی، پانچ سالہ دور میں تنخواہوں کو دگنا کرنا ترجیح ہوگی، غریبوں کو تیس لاکھ گھر بناکر دیں گے، یوتھ کارڈ کے ذریعے نوجوانوں کو ایک سال تک مالی امداد دیں گے۔ سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت پورے ملک میں صحت کا مفت نظام متعارف کرائیں گے، ہر ضلع میں گرین انرجی کے نام پر پارک کھولیں گے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرح کسان کارڈ بھی لائیں گے۔ بلاول بھٹو نے بھوک مٹائو پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اس پروگرام کے ذریعے ہم غربت اور بے روزگاری کا مقابلہ کریں گے انہوں نے مزید کہا کہ کسان خوشحال تو ملک خوشحال، میں کسان کارڈ دوں گا، ہم کسانوں کو ڈائریکٹ سبسڈی دلوائیں گے، ہم مزدوروں کو رجسٹرڈ کرائیں گے، گھروں اور دکانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو سپورٹ کریں گے۔دریں اثناء امیر جماعت نے کہا کہ جماعت اسلامی اقتدار میں آکر350یونٹ تک بجلی مفت فراہم کرے گی، ہم نوجوانوں کو نوکری نہ ملنے تک روزگار الاؤنس دیں گے، سرکاری زمینیں بے زمین کسانوں، ہاریوں اور نوجوانوں میں تقسیم کریں گے، بلاسود مائیکروفائنانسنک متعارف کروائیں گے، خواتین کے حقوق کی حفاظت یقینی بنائی جائے گی، ریاستی وسائل کا رخ عام آدمی کی طرف موڑیں گے، وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہوگا، قانون سب کے لئے برابر، بے لاگ احتساب ہوگا،جماعت اسلامی کے دور اقتدار میں عدالتوں میں قرآن کے ذریعے فیصلے ہوں گے، اسلامی نظام نافذ کریں گے۔پاکستان تحریک انصاف جن معاملات میںالجھی ہوئی ہے ایسے میں ان کے گزشتہ انتخابات کے منشور کو ہی کافی سمجھا جانا چاہئے البتہ پاکستان مسلم لیگ نون جو خود کو 2024ء کے انتخابات میں فاتح کے طور پر دیکھتی ہے ان کی جانب سے منشور کے اعلان میں روایتی تاخیر کا مظاہرہ ہو رہا ہے جو ہمیشہ دیر کردیتا ہوں کے مصداق ہے جبکہ نوزائیدہ جماعتوںکی طرف سے بھی عوامی مسائل کے حل کے حوالے سے دعوئوں اور دیگر پرانی جماعتیں بھی زمین آسمان کے قلابے ملا رہی ہیں جو زیادہ قابل غور اس لئے نہیں کہ ان کی حکومت سازی میں حصہ قابل توجہ حد تک ہونا مشکل ہے اور یہ گویا ہر حکومت میں ضم ہونے والی جماعتیں ہیں جواپنا منشور پیش کرکے اس پر آزادانہ طور پر عملدرآمد کی پوزیشن میں نہیں ہوتیں ایسے میں ڈرائیونگ سیٹ پربراجمان جماعت اور ان کے منشور ہی کو اہمیت ملتی ہے یہ الگ بات ہے کہ چھوٹی بڑی جوبھی جماعتیں منشور پیش کریں یا نہ کریں انتخابی مہم ختم ہونے اور پولنگ کا دن گزر جانے کے بعد پھر مڑ کر دیکھنے کا کوئی رواج نہیں کہ انہوں نے عوام کوکیاکیا خواب دکھائے تھے من حیث المجموع اب تک جوچھوٹی بڑی جماعتیں اکثریت یا مخلوط ہر دو صورتوں میں برسر اقتدار رہی ہیں کوئی بھی جماعت اس بات کادعویٰ نہیں کرسکتی کہ ان کی جماعت وحکومت نے اپنے منشور کے بڑے حصے پرعملدآرمد کی سنجیدہ سعی کی ہے ۔ ایک جانب جہاں ماہانہ بنیادوں اور پچھلی تاریخوں میں بھی بجلی مہنگی ہو رہی ہے ایک نوزائیدہ جماعت سمیت پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی تین سویا کچھ زائد یونٹ بجلی مفت دینے کے وعدے دعوے اور اعلانات کر رہی ہیںاور یہ ان کے منشورکا اہم حصہ سمجھا جاتا ہے ان سے سوال کیا جانا چاہئے کہ آخر ان کے اس دعوے کی بنیاد کیا ہے اور وہ اس پر کس طرح عملدرآمد کس طرح ممکن ہوسکے گا اس طرح کی دعویدار جماعتوں کو اپنے دعوے کی وضاحت کرنی چاہئے ان کی نیت پر شبہ کئے بنا بھی یہ ممکن نظرنہیں آتا کہ کوئی حکومت عوام کو اس حد تک ریلیف دینے کی متحمل ہوسکے گی بنابریں یہ دعویٰ قابل رد اور عوام کو سبز باغ دکھانے کے زمرے ہی آئے گا ۔ پیپلزپارٹی کے دعوے ہوں یا جماعت اسلامی کے یاپھر دیگر جماعتوں کے دعوے ان کے منشور میں مسائل کا ٹھوس بنیادوں پر حل تجویز نہیں بلکہ ایسے جذباتی وعدے ہیں جن کاایفا عملی طور پرممکن نہیں۔مسلم لیگ نون کامنشور ابھی نہیں آیا لیکن قبل ازوقت بھی اس حوالے ١سے پرامیدی کا اظہار نہ کرنے کی حالات و واقعات کی رو سے بڑی گنجائش موجود ہے ۔ آئندہ جو بھی حکومت آئے اگر وہ ابتداء ہی سے کمزور اور انتشار کا شکار نہ بھی ہوئی تب بھی آئی ایم ایف سے حصول قرض اور قرضوں کی ادائیگی ‘ معیشت کی خراب صورتحال ‘ تجارتی عدم توازن اور اس جیسے جودیرینہ حل طلب مسائل ہیں یہ سارا منظر نامہ ہی پریشان کن اور مشکلات کا ہے ایسے میں کسی سیاسی جماعت سے توقعات کی وابستگی میں زیادہ پرجوش اور پرامیدی سے گریز ہی کم مایوس کن اور حقیقت پسندی ہوگی۔

مزید پڑھیں:  ''روٹی تھما کر چاقو چھیننے کا وقت''؟