خیبرپختونخوامیں اطمینان بخش انتخابی ماحول بنانے کی ضرورت

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم شہباز شریف نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو الیکشن کمیشن پر حملہ قرار دیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ انصاف کا ترازو لاڈلے کی طرف جھکایا جا رہا ہے جبکہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ فیصلے جج کریں تو الیکشن کمیشن کیسے آزاد ہو؟ا معاملات صرف عدالتی فیصلے پر ہی تنقید تک محدود نہیں بلکہ اس امر پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ان کی دانست میں اس وقت پاکستان کے دو صوبوں میں امن و امان کی صورتحال دگرگوں ہے یہ دونوں صوبے یعنی خیبر پختونخوا اور بلوچستان بد ا منی کی ز د میں ہیں ان کی جانب سے مسلسل یہ کہا جا رہا ہے کہ جہاں انہیں الیکشن دیا جائے وہاں انتخابی ماحول بھی سازگار ہونا چاہیے تاکہ عوام پرامن طریقے سے اپنے ووٹ کا حق کا استعمال کر سکیں اور تمام امیدواروں کو عوام کے پاس جانے کیلئے تحفظ اور سازگار ماحول ملے، وطن عزیز کی سیاست کا عوام اور جمہوریت کے گرد گھومنے کی بجائے دیگر عوامل کا طواف کرنا کوئی تعجب خیز امر نہیں رہا بلکہ اس کی روایت چلی آرہی ہے اس مرتبہ کے عام انتخابات بھی روایت شکن نہیں بلکہ 2024 ء کے انتخابات میں بھی سیاسی تاریخ اپنے آپ کو دہراتی نظر آرہی ہے۔ سیا ستد ا نو ں اور عدلیہ کے گرد گھومنے والی پاکستانی سیاست کے باعث عدلیہ کا وقار گزشتہ اور آمدہ ہر دو انتخابات میں جس طرح داؤ پر نظر آرہا ہے وہ ملکی سیاست کا وہ افسوس ناک پہلو ہے جس کا ادراک نہ کیا گیا تو توہین عدالت بے معنی ہو کر رہ جائے گی، الیکشن کمیشن کے اقدام کے حوالے سے ایک فیصلے پر پشاور ہائی کورٹ کو جس طرح مرکزی اور سنجیدہ قسم کے سیاست دانوں کی طرف سے تنقید کانشانہ بنایا جا رہا ہے اور دوسری جانب عدالت عظمیٰ اور بعض ماتحت عدالتیں جس طرح ایک بڑی سیاسی جماعت کے نشانے پر ہیں مستزاد جس طرح انتظامیہ عدالت فیصلوں کو پرے رکھتے ہوئے اس کے فیصلوں کے اطلاق کی بجائے تکنیکی خلاف ورزی کی جس مہم پر ہے اس سے تاثر یہ مل رہا ہے کہ ملکی سیاست عوام میں نہیں ایوان عدل میں ہونے والی کوئی چیز ہے ،عدالت عالیہ پشاور ایک فریق کی تنقید کی زد میں ہے تو عدالت عظمیٰ سے دوسری جماعت کو شکایات ہیں عدالت کے فیصلوں کی پسند و ناپسند کی بنیاد پر سیاسی تشریح کا جو معمول بن گیا ہے اس کے بعد عدالتیں اور ججیں بھی ایوان عدل اور عدل کی کرسی سیاسی اکھاڑے میں اتاری گئی ہے جس کی نہ تو کسی طور گنجائش ہے اور نہ ہی ایسا کرنا مناسب اور سیاستدانوں کو زیب دینے والا عمل ہے، اس ماحول میں عدالتیں بھی ایک طرح سے دفاعی پوزیشن لیتی نظر آتی ہیں وگرنہ اگر ان بیانات کا نوٹس لیا جائے تو سیاست دانوں کی بڑی تعداد کٹہرے میں نظر آئے گی،یہ معاملہ عدالت کیلئے گویم مشکل ونگویم مشکل کی سی بن گئی ہے سیاست عدالتی فیصلوں کے محور میں گھومنے لگے تو عوامی محور نہیں رہ سکتی حالانکہ سیاست کا محور عوام اور جمہوریت ہوتے ہیں ملکی سیاست کو اس محور میں واپس لانے کیلئے عدلیہ الیکشن کمیشن اور سیاستدانوں سبھی کو اپنے اپنے مقام پر ان حالات اور صورتحال پر غور کرنے کی ضرورت ہے جس کے باعث حالات اس نہج پر نظر آتے ہیں۔ ان حالات میں معاملات جس طرح غیر محسوس طریقے سے الجھ رہے ہیں وہ صورتحال کسی کیلئے بھی اچھی نہیں ہوگی ،خیبر پختونخوا میں ایک بڑی جماعت کے قائد تسلسل کے ساتھ انتخابی حالات اور صورتحال پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ صوبے میں دو مرتبہ حکمران رہنے والی جماعت کی شکایات میں اپنی جگہ وزن ہونا تو فطری بات ہے ،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان حالات میں خیبر پختونخوا میں انتخابات کا انعقاد ہو سکے گاجہاں دو بدترین سیاسی مخالف فریق کو انتخابات بارے یکساں تحفظات ہوں؟، صوبے میں انتخابی عمل کی نگرانی کرنے والوں کی سرد مہری اور اصل کام پر توجہ کی بجائے دیگر ایسے شعبوں جن کے حوالے سے نگران حکومت کے فیصلے معنی خیز ہوں توجہ سے ایسا لگتا ہے کہ گویا نگران وزیر اعلیٰ کو صوبے میں انتخابات کے ملتوی ہونے کا یقین ہو اور ان کو طول ملنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہو ،سیاسی جماعتیں حیرت انگیز طور پر عدلیہ کو تو مطعون کرتی ہیں لیکن نگران کابینہ کے صوبے میں امن و امان اور انتخابی ماحول کو سازگار بنانے کی ذمہ داری سے احتراز پر کوئی بھی لب کھولنے کو تیار نہیں یہ ایک ایسا معمہ ہے جو سمجھنے کا ہے اور نہ سمجھانے کا۔نگران حکومت اپنی سرگرمیوں پر نظر ثانی کر کے اگر انتخابی ماحول کو سازگار بنانے کی ذمہ داری کی طرف متوجہ نہ ہوئی تو خیبر پختونخوا میں انتخابات کا انعقاد خطرے میں پڑ سکتا ہے ،صوبے میں سیاسی ماحول سازگار نہ ہونے کے باعث انتخابی عمل ناممکن ہو تو اس کا اثر رائے ہندگان پر بھی پڑے گا جن کو محفوظ ماحول فراہم کرنا حکومت کی بنیادی ذمہ داری اور اس کا فرض ہے جس میں ناکامی آئینی ذمہ داریوں میں ناکامی ہوگی، ان حالات میں صوبے میں نگران حکومت کا جواز ہی باقی نہیں رہتا ،قبل اس کے کہ مزید تاخیر ہو جائے اور پانی سر سے اونچا ہو جائے صوبائی حکومت کو اپنی اصل ذمہ داریوں کی طرف متوجہ ہونا چاہیے تاکہ صوبے میں پھیلی بے چینی کی فضا دور ہو اور سیاسی ماحول بنے۔

مزید پڑھیں:  سمت درست کرنے کا وقت