تاحیات نااہلی،11 جنوری تک سماعت مکمل کر لیں گے، چیف جسٹس

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ میں تاحیات نااہلی کیس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بنچ کر رہا ہے۔ بینچ کے دیگر ممبران میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی سزا 5 سال کرنے اور تاحیات نااہلی کے فیصلے پر نظر ثانی ہونی چاہیے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کا مؤقف کیا ہے کہ الیکشن ایکٹ چلنا چاہیے یا سپریم کورٹ کے فیصلے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عدالت سے درخواست ہے کہ تاحیات نااہلی کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لیا جائَے۔
دوران سماعت میر بادشاہ قیصرانی کے خلاف درخواست گزار کے وکیل ثاقب جیلانی نے بھی تاحیات نااہلی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے 2018 میں درخواست دائر کی جب 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا فیصلہ آیا، اب الیکشن ایکٹ میں سیکشن232 شامل ہوچکا ہے اس لیے صرف تاحیات نااہلی کی حد تک استدعا کی پیروی نہیں کر رہا۔
چیف جسٹس نے مزید استفسار کیا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کو کیا کسی نے عدالت میں چیلنج کیا؟، جس پر درخواست گزار نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ کو کبھی بھی چیلنج نہیں کیا گیا۔
اس دوران چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا کوئی ایسی صوبائی حکومت ہے جو الیکشن ایکٹ 2017 کی مخالفت کرے۔ ان کے اس سوال پر صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز نے مؤقف پیش کیا کہ تمام صوبائی حکومتیں الیکشن ایکٹ 2017ء کو سپورٹ کر رہی ہیں۔
اس دوران اٹارنی جنرل نے آرٹیکل 62،63 میں رکن پارلیمنٹ بننے کے لیے اہلیت اور نااہلی کی تمام آئینی شرائط پڑھ کر سنا دیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم تو گناہ گارہیں اور اللہ سے معافی مانگتے ہیں، آرٹیکل 62 میں نااہلی کی مدت درج نہیں بلکہ یہ عدالت نے دی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب تک عدالتی فیصلے موجود ہیں تاحیات نااہلی کی ڈکلیئریشن اپنی جگہ قائم ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن ایکٹ بھی تو لاگو ہوچکا ہے اور اس کو چیلنج بھی نہیں کیا گیا۔ جسٹس منصور نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ سوال یہ ہے کہ کیا ذیلی آئینی قانون سازی سے آئین میں ردوبدل ممکن ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ نااہلی کی مدت کا تعین آئین میں نہیں، اس خلا کو عدالتوں نے پر کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا الیکشن ایکٹ میں دی گئی نااہلی کی مدت آئین سے زیادہ اہم تصور ہو گی؟ آرٹیکل 63 کی تشریح کا معاملہ ہے، سنگین غداری کرے تو الیکشن لڑ سکتا ہے، سول کورٹ سے معمولی جرائم میں سزا یافتہ الیکشن نہیں لڑ سکتا، کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کو ختم کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی؟ کیا آئین میں جولکھا ہے اسے قانون سازی سے تبدیل کیا جاسکتا ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی میعاد کا ذکرنہیں ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ جب تک عدالتی فیصلہ موجود ہے نااہلی تاحیات رہے گی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ قتل اور ملک سے غداری جیسے سنگین جرائم میں آپ کچھ عرصے بعد انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں، انہوں نے استفسار کیا کہ معمولی وجوہات کی بنیاد پرتاحیات نااہلی غیرمناسب نہیں لگتی؟، جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ کیا سپریم کورٹ نے ڈیکلئیریشن ازخود اختیار استعمال کر کے دی؟
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون جی اور آرٹیکل 63 ون جی کی زبان ایک سی ہے، آرٹیکل 63 ون جی کے تحت ملکی سالمیت اور نظریے کی خلاف ورزی کرنے والے کی نااہلی 5 سال ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر ایک شخص کےخلاف مقدمہ ہو تو وہ 2 سال سزا کاٹ کر واپس آسکتا ہے مگرایک شخص کےخلاف مقدمہ نہ ہو بلکہ ڈیکلیئریشن آجائے تو وہ دوبارہ آہی نہیں سکتا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کوئی شخص حلفیہ طور پر کہہ سکتا ہے کہ وہ اچھے کردار کا مالک ہے؟ اگر 2002 میں قائد اعظم ہوتے تو وہ بھی نااہل ہوتے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جب غیر منتخب لوگ قوانین بنائیں گے تو ایسے ہی ہو گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جس فوجی آمر نے 1985 میں آئین کو روندا اسی نے آرٹیکل 62 اور 63 کو آئین میں شامل کیا، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے کہ اٹھارہویں ترمیم میں آرٹیکل 62 اور 63 پر مہر لگائی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کیسے آئین میں اہلیت کا معیار مقرر کرسکتا ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپریم کورٹ صرف صوبوں کے مابین تنازعات پر ڈیکلریٹو فیصلہ دے سکتی ہے۔
درخواست گزار ثنا اللہ بلوچ نے کہا کہ 50 سال سے قانون میں اراکین کی اہلیت کا معیار طے ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پھر اس سے پہلے کوئی 62 ون ایف کے تحت نااہل کیوں نہ ہوا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جھوٹ بولنے پر سزا تاحیات ہے، قتل یا غداری پر سزا محدود ہے اور وہ الیکشن بھی لڑسکتا ہے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ اسلامی معیار کے مطابق تو کوئی بھی اعلیٰ کردار کا مالک ٹھہرایا نہیں جا سکتا، آرٹیکل 62 کی وہ ذیلی شقیں مشکلات پیدا کرتی ہیں جو اہلیت سے متعلق ہیں۔ صادق اور امین کے الفاظ کوئی مسلمان اپنے لئے بولنے کا تصور نہیں کر سکتا۔
چیف جسٹس نے مخدوم علی خان کو روسٹرم پر بلایا اور ان سے پوچھا یہ بتائیں کہ آرٹیکل 62 میں یہ شقیں کب شامل کی گئیں؟ جس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ آرٹیکل 62 آئین پاکستان 1973ء میں سادہ تھا، آرٹیکل 62 میں اضافی شقیں صدارتی آرڈر 1985ء سے شامل ہوئیں۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 4 جنوری ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ 11 جنوری تک کیس پر سماعت مکمل کر لیں گے۔ ہم اس کیس میں عدالتی معاون بھی مقرر کریں گے، اگر کوئی سینئر وکیل عدالتی معاونت کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ تمام وکلا ویڈیو لنک کے بجائے اسلام آباد میں پیش ہوں۔

مزید پڑھیں:  مزدوروں کی قربانیوں اور جدوجہد پر خراج تحسین پیش کرتےہیں