ہر ذی روح کیلئے مثل شہر خموشاں

صوبائی دارالحکومت پشاور کے نواح میں بھٹہ خشت کی صورت میں جس طرح آلودگی کے کارخانے مسلسل چل رہے ہیں اورحیات آباد انڈسٹریل سٹیٹ سمیت دیگر کارخانوں اور مراکز کے آبادی کے قریب ہونے کے باعث آلودگی کے اثرات سے جس طرح شہر فضائی کثافت اور آلودگی کا شکار بن رہا ہے اس پر باوجود بلند و بانگ دعوئوںکے متعلقہ حکام کی توجہ اور خاص طور پرعملی طور پر اس صورتحال پر قابو پانے کی سعی سرے سے نظر ہی نہیں آتی۔ اضاخیل سے متنی تک کی اس پٹی میں بھٹہ خشت میں جلائی گئی ربڑ اور ایندھن سے جو دھواں اٹھتا ہے اس سے فضا کی رنگت ہی کالی اور بھوری نظر آتی ہے صاف وشفاف موسم میں بھی نیلگون آسمان کو اس کی حقیقی رنگت میں دیکھنا ممکن ہی نہیں یہ کوئی پوشیدہ امر نہیں اور نہ ہی الزام ہے ایک عام مشاہدے کی بات ہے علاقے اور اردگرد کی آبادی میں طرح طرح کی بیماریوں میں اضافے کی بڑی وجہ آلودگی ہے اس پر بھی کسی کی نظر نہیں جاتی اس صورتحال کی نشاندہی کی کوئی ضرورت نہیں یہاں کی انتظامیہ اور یہاں کے مکینوں کو اس کا بخوبی علم کے ساتھ ساتھ سامنا بھی ہے یہاں سے گزرنے والے مسافر بھی اس کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ محولہ حدود کے قریب آتے ہی انہیں کھانسی اور دم گھٹنے کا سامنا ہوتا ہے اگر کسی کو احساس نہیں تو وہ حکومتی ادارے ہیں ماحولیات کے تحفظ کے حکومتی ذمہ داروں اور سرکاری حکام کی بے حسی کاآخر کب تک ماتم کیاجائے اور ان کو کس دن اس کا احساس ہو گا کہ ان کی غفلت و لاپرواہی و ملی بھگت سے یہ پورا علاقہ ہر ذی روح کے لئے قبرستان بنتا جارہا ہے ۔
انتخابی بینرز اتارنے میں تاخیر نہ کی جائے
آلودگی کی مختلف اقسام سے تو ہم واقف ہیں اور اس سے ہمارا واسطہ رہتا ہے البتہ انتخابی آلودگی سے واسطہ ہر پانچ سال میں عام انتخابات اور کسی حد تک بلدیاتی انتخابات کے موقع پر پڑتا ہے اس وقت عام انتخابات کے اختتام پذیر ہونے کے بعد جس قسم کی صورتحال درپیش ہے اس کا بخوبی مشاہدہ ممکن ہے ہمارے نامہ نگار کے مطابق ضلع بھر سے بھاری مقدار میں انتخابی مواد کا کچرا بھی تلف کرنا بلدیاتی اداروں کیلئے چیلنج بن گیا ہے پشاور کی سڑکوں ، چوراہوں اور راہداریوں میں بینرز اور پوسٹرز لگائے گئے ہیں پینافلکس بھی لگے ہیں جبکہ کئی مقامات پر دیواروں پر پوسٹرز لگائے گئے ہیں پشاور کے مختلف بلدیاتی اداروں نے ان کو ہٹانے کا کام شروع کردیا ہے تاہم وہ کام انتہائی سست روی سے جاری ہے اور اس رفتار سے پشاور کو صاف کرنے کیلئے کئی روز لگ سکتے ہیں۔ یہ بینرز اور پینافلکس لگانے کیلئے ان امیدواروں نے لاکھوں کی ادائیگی کی تھی۔لیکن اسے اتارنے کا کام ان کی جانب سے نہ ہونے کے باعث اب سرکاری اداروں کی ذمہ داری بن گئی ہے جس طرح ان بینرز کے لگانے کے لئے امیدوارلاکھوں روپے کی ادائیگی کرتے ہیں اس کے لئے مناسب طریقہ کار یہ ہوسکتا ہے کہ اسی وقت سرکاری اداروں کوبھی ان کو اتارنے کے لئے بھی رقم کی ادائیگی کی جائے اس کے بغیر بینرلگانے کی اجازت نہ ہو۔بہرحال اب جبکہ سارا شہر اٹا پڑا ہے اور فتح وشکست سے دو چار امیدواروں سے اس کی توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنے بینر اتروانے کی زحمت کریں ایسے میں شہری اداروں ہی سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اس عمل میں تاخیر کامظاہرہ نہ کریں اور شہر کی صفائی میں مزید تاخیر نہ ہو۔

مزید پڑھیں:  نومئی کا ماتم اور بارہ اکتوبر کا غم