یا بہ اٹک نہ وی یا بہ خٹک نہ وی

اقبال نے کہا تھا …….”آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے گئے“۔۔۔۔
اپنے سابق صوبے دار ( پرویز خٹک) کپتان کے مقابلے میں اپنی نئی نویلی پارٹی کی نقاب کشائی کے بعد دوبارہ صوبے داری کے جس طرح دعوے کررہے تھے ۔سننے والے انہیں سچ مچ کا وزیراعلیٰ وہ بھی ایڈوانس میں سمجھنے لگے تھے۔
اس قسم کی سمجھ بوجھ میں ہم سے بابو (بیوروکریسی) حضرات بہت آگے تھے۔ چڑھتے سورج کو سلامی دینے کے لیے کئی ایک لائن بنا کر کھڑے ہوگئے تھے تاہم آٹھ فروری کانتیجہ سامنے آیا تو نو فروری کو یہی بابو ہمارے سابق صوبے دار کا فون نمبر وغیرہ وغیرہ بلاک کرچکے تھے۔
خٹک صاحب دل برداشتہ تو بہت ہوئے تاہم چند دن تک ہوش و حواس بچاتے ہوئے انہوں نے انتہائی اقدام سے گریز ہی اختیار کیے رکھا تاہم اب ان کا ضبط جواب دے گیا اور انہوں نے اپنے ہاتھوں سے ہی اپنی نئی نویلی جماعت کا تیا پانچہ کرتے ہوئے نہ صرف اس کی سربراہی سے استعفیٰ دے دیا ہے بلکہ وہ اس کی بنیادی رکنیت سے مستعفی ہوکر ہما شما کو بھی کوئی اور در دیکھنے کا کہہ گئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اب رجوع کریں گے یا معافی تلافی کی گنجائش نشتہ!

مزید پڑھیں:  پشاور :ایف پی سی سی آئی کا بزنس کمیونٹی اور اداروں میں مربوط نظام قائم کرنے کا فیصلہ