پشاور یونیورسٹی :ماضی، حال اور مستقبل

یونیورسٹی کو اردو میں دانش گاہ کہتے ہیں، ٹھیک نام رکھا ہے کسی نے، کیونکہ یہاں بے شمار دانشور ہیں اور ان کی دانش کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں ہے، اور انہی کے بارے میں شاعر مشرق علامہ اقبال نے فرمایا ہے کہ
اہل دانش عام ہیں کم یاب ہیں اہل نظر
کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا ایاغ
خبر ہے کہ پشاور یونیورسٹی میں ہر سال طلبہ وطالبات کے داخلوں میں کمی واقع ہو رہی ہے، خاص کر چار سالہ بی ایس پروگرام میں نصف سے بھی زیادہ کمی آئی ہے، یونیورسٹی کے ترپن شعبوں میں ہر سال چھ ہزار طلبہ کو داخلہ دینے کی گنجائش ہوتی ہے لیکن رواں سال آدھے سے بھی کم لوگ داخلے کے لئے آئے ہیں جن کی تعداد دو ہزار آٹھ سو ہے، یہاں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے کہ دس شعبے ایسے بھی ہیں کہ جہاں ایک بھی طالب علم نے داخلہ نہیں لیا اور اس میں پشتو، فارسی، فلسفہ، صنفی علوم، تاریخ، سماجیات سمیت دیگر شعبہ جات شامل ہیں، یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اس تنزلی کا ملبہ فیسوں میں اضافے اور ملازمین کے بار بار احتجاج پر ڈال دیا ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں اور اس کے علاوہ کئی کالجوں میں بھی بی ایس پروگرام شروع ہوگئے ہیں جہاں فیس کم ہے اور ڈگری وہی ہے، لیکن صرف یہی اسباب نہیں ہیں، دوسروں پر الزام لگا کر خود کو بری الذمہ سمجھنا سب سے آسان کام ہے، آج سے پچیس سال پہلے جب میں پشاور یونیورسٹی میں پڑھتا تھا ہر جگہ اس کا طوطی بولتا تھا اور یہاں پڑھنا ایک اعزاز سمجھا جاتا تھا، ہماری اقدار اس ادارے میں زندہ تھیں، ادب و احترام اور چھوٹے بڑے کی تمیز باقی تھی، شرم وحیا ہر کسی میں کسی نہ کسی درجے میں موجود تھی، استاد کا احترام باقی تھا اور وہ استاد بھی عزت کے قابل تھے، مجھے یاد ہے کہ دو دن میں کلاس نہیں گیا اور کتابوں کے سٹال پر کھڑا رہا، استاد محترم نے وہاںآکر سرزنش کی، کیا آج کے استاد کو بھی ایسی کوئی فکر ہے کہ اس کے بچے سارا دن کہاں ہوتے ہیں اور کیا کرتے ہیں، داخلے اس لئے نہیں ہو رہے کہ اب ہمیں بڑے بڑے مسائل کا سامنا ہے اور والدین اپنے بچوں کو ایسے اداروں میں بھیجنا ہی نہیں چاہتے ہیں، ڈگریوں کی بھرمار ہے اور اساتذہ اعلیٰ کردار اور تربیت سے عاری ہیں، جن کا اپنا کردار نہیںوہ کسی کی کیا تربیت کریں گے، سارا وقت جھوٹی اور جعلی تحقیق جمع کرنے میں صرف ہوتا ہے، جب اپنی ترقی بچے کی ترقی پر مقدم ہو گی تو حال یہی ہوگا، پشاور یونیورسٹی نہیں بلکہ کوئی بھی پاکستانی یونیورسٹی عالمی درجہ بندی میں کسی اہم مقام پر موجود نہیں ہے، ہراسگی اس قدر ہے کہ بیان ممکن نہیں، نسلی، لسانی اور صنفی بنیادوں پر نمبر بانٹے جاتے ہیں، سمسٹر سسٹم ایمان دار قوموں کے لئے ہے، ہم جیسے بے ایمان اور خائن لوگ اسے نہیں چلا سکتے، اقرباء پروری اور سیاسی بھرتیوں نے نسلیں غلام بنا دی ہیں، اور سب سے بڑا مسئلہ اداروں کے نا لائق اور نااہل سربراہاں ہیں جن کو خوشامدیوں نے گھیر رکھا ہوتا ہے، جو ان کے سامنے ان کی تعریفوں کے پل باندھ کر اپنے الو سیدھے کرنے میں لگے رہتے ہیں، مسائل اس قدر ہیں کہ ان کا احاطہ ممکن نہیں اور جس سے بھی بات کریں کوئی سننے کو ہی تیار نہیں ہے، اپنے مقدمے کی وضاحت میں، میں آپ کے سامنے ایک زندہ مثال رکھتا ہوں، یہ پشاور یونیورسٹی میں ایک طالب علم کے ساتھ ہونے والا سچا واقعہ ہے، کچھ عرصہ قبل ایک عزیز نے رابطہ کیا کہ کیا آپ پشاور یونیورسٹی میں کسی کو جانتے ہیں، میں نے عرض کیا جی بتائیں کیا مسئلہ ہے کوشش کرتاہوں، آپ یقین کریں کہ میں ان کی کوئی مدد نہیں کرسکا، انہوں نے مجھ سے ایک بچے کے بارے میں بات کی تھی کہ جو اس وقت آٹھ کی بجائے گیار ہویں سمسٹر میں پہنچ چکا تھا لیکن اسے ڈگری نہیں ملی تھی بلکہ ابھی تک نہیں ملی ہے، میں نے یہ کہانی پھر اسی بچے کی زبانی سنی، اس نے بتایا کہ یہ صرف میری کہانی نہیں بلکہ ہر دن میں کسی نہ کسی بچے کو اس کرب سے گزرتا دیکھتا تھا، استاد کسی دوسرے اساتذہ کے خلاف عدالت میں کیس کرکے اس مقام تک پہنچے تھے، بات بات میں ہمیں دھمکیاں دیتے اور کہتے کہ ہمارے خلاف عدالت چلے جاؤ، جسے چاہتے امتحان دینے دیتے اور جس کو چاہتے منع کر دیتے، تمام فیصلے اپنی ذاتی پسند اور نا پسند کی بنیاد پر ہوتے، خاص وضع قطع کے طالب علم ان کے دلدادہ تھے جو ان کی تعریفیں کرتے رہتے تھے، کسی لائق یا باصلاحیت کے لئے ہماری کلاس میں کوئی جگہ نہیں تھی، دور دور سے آئے بچوں کو بار بار فیل کر دیا جاتا تھا، کسی سے بھی بات کرتے تو یہ بتایا جاتا کہ چپ رہو اور کچھ نہ کہو ورنہ پھر فیل ہو گے، آٹھویں سمسٹر میں مجھے جب کم حاضری کی بنیاد پر امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی گئی تو میں نے اپنی حاضری کا ریکارڈ مانگا تو مجھے نہیں دیا گیا، کبھی ایک بہانہ اور کبھی دوسرا بہانہ لیکن باوجود اصرار کے مجھے میری حاضری کا ریکارڈ نہیں دیا گیا اور اسی بنیاد پر مجھے ایک بار پھر فیل کر دیا گیا، اساتذہ ایسے آپس میں ملے ہوئے تھے کہ اگر کوئی میرے پرچے میں فیل ہو گا تو تم نے بھی اسے فیل کرنا ہے اور اس کے لئے ایک دوسرے کے نتیجے کا انتظار کیا جاتا تاکہ بات کسی ایک استاد پر نہ آئے بلکہ بچے پر آئے کہ وہ میرے پاس نہیں ہر جگہ فیل ہے، یونیورسٹی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں تھا کہ جہاں ہم نے بار بار درخواست نہ دی ہو لیکن کسی نے بات نہ سنی، اور مزے کی بات ہے کہ آخر میں لڑکیاں سب پاس ہو گئیں اور ہم رہ گئے، اب اساتذہ نے فیل بچوں کو الگ الگ بلانا شروع کیا اور کہا کہ فلاں کو چھوڑو ہم تمھارا مسئلہ حل کرتے ہیں،یہ استاد ہیں، ایسے ہوتے ہیں پیغمبرانہ پیشے والے اور پھر کہتے ہیں استاد کو عزت دو، سب ہماری وجہ سے کامیاب ہوتے ہیں، جناب پانچ فیصد کامیاب ہوتے ہیں اگر اس پر آپ کو نشان حیدر ملنا چاہیئے تو پچانوے فیصد کی ناکامی پر سر بھی قلم ہونا چاہئے، بچے کا کہنا تھا کہ میں شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوں، یہ سارا وقت بے پناہ خوف کے عالم میں گذارا ہے، بہت زیادہ مالی نقصان ہوا ہے، قیمتی وقت ضائع ہوا ہے، گھر والوں کے سامنے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے، جو پاس ہو بھی گئے ہیں سب کے سب بے روزگار ہیں،میرے علاقے سے کئی لوگوں نے مجھے داخلہ فارم دیا کہ پشاور یونیورسٹی میں جمع کرنا ہے میں نے اپنے ہاتھ سے وہ فارم پھاڑ کر پھینک دیئے،اور کسی کا داخلہ نہیں ہونے دیا اور نہ ہونے دوں گا، جناب اس لئے داخلوں میں کمی آرہی ہے، کہاں ہیں اس سب کے ذمہ داران، اللہ جانے یہ راتوں کو کیسے سو جاتے ہیں اور اللہ پاک کو کیا جواب دیں گے، جیسے ہر یونیورسٹی بہاولپور یونیورسٹی ہے ویسے ہی یہ کہانی بھی ہر یونیورسٹی کی ہے، اور جب ہر یونیورسٹی معاشرے کو ایسے ہی افراد مہیا کر رہی ہے تو معاشرہ ایسا ہی ہو گا، قانون فطرت کے عین مطابق جو بویا ہے وہ کاٹ رہے ہیں، اور سوچیں کہ اب جو بو رہے ہیں جب وہ کاٹیں گے تو کیا عالم ہو گا۔

مزید پڑھیں:  ایرانی گیس پاکستان کے لئے شجرِممنوعہ؟