دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

وزیراعظم شہباز شریف کی پشاور میں مصروفیات کے دوران وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپورکا غیر حاضر رہناسیاسی طور پرتو درست مانا جا سکتا ہے مگر وفاق اور صوبے کے تعلقات کے حوالے سے یہ مثبت امرتھا اور نہ ہی یہ ایک اچھی ابتداء تھی۔پروٹوکول کے مطابق وزیراعظم کی کسی بھی صوبے میں آمد پر گورنر اور وزیراعلیٰ کی موجودگی ضروری ہوتی ہے، گورنر ہاؤس پشاور میں حالیہ بارش کے متاثرین میں چیک تقسیم کرنے کی تقریب میں بھی وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا شریک نہیں ہوئے،جہاں امن و امان اور صوبے کے مالی معاملات سے متعلق اجلاس کاانعقاد ہوا۔سیاسی اختلافات کے باعث بعد کی کیفیت فطری امر ہے لیکن جب وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے عہدے کے تقاضوں کا سوال ہو توپھر پروٹوکول کی پابندی اورصوبے کے معاملات اور جملہ امور میں بغیر ہاتھ ملائے بھی صوبے کی نمائندگی کی ذمہ داری سے صرف نظر کی گنجائش نہیں تھی ۔ اس سے اچھا تاثر قائم نہیں ہوا مستقبل میں مرکز کو صوبے سے واسطہ شاید کم پڑے لیکن صوبے کے معاملات اور حقوق کے حصول کیلئے وفاق سے رابطے کی ضرورت پڑ سکتی ہے،ماضی میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف اور سابق وزیراعظم بھٹو کے درمیان تعلقات ہوں یا مابعد ایسا ہوتا ہی رہا ہے لیکن اس کے اثرات اچھے نہیں نکلے ،بہتر ہو گا کہ سیاسی مخاصمت کے باوجود صوبہ مرکز سے ضروری امور میں خود صوبے کے مفاد میں روابط رکھنے پر غور کرے تاکہ کسی ممکنہ محاذآرائی اور اختلافات کی آڑ میں مرکز خیبر پختونخوا سے روایتی سوتیلی ماں کے سلوک کیلئے دلیل کے طور پر پیش نہ کر سکے اور صوبے کے حقوق متاثر نہ ہوں۔

مزید پڑھیں:  چوری اور ہیرا پھیری

رمضان سے قبل مہنگائی
اگرچہ مہنگائی 16ماہ کی کم ترین سطح پرآکر 23.1 فیصد پر پہنچ گئی ہے لیکن رمضان میں اس معمولی فائدہ کے بھی ختم ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ قیمتیں پھر سے بڑھنا شروع ہو گئی ہیں، ماہ صیام قریب آتے ہی ملک بھر میں قیمتیں بڑھانا ہر سال کا معمول ہے ،اس کی مختلف وجوہات ہیں جیسے کہ زیادہ مانگ اور محدود رسد، اعلیٰ عالمی اجناس میں توانائی کی قیمتیں، نیز قیمتوں میںاضافے کا پرانا عمل اور مارکیٹ کے اجارہ دار عناصر کی جانب سے فوری پیسہ کمانے کیلئے مصنوعی قلت پیدا کرنی جیسی وجوہات ہوسکتی ہیں، ایسے میں حکومت کو چاہئے کہ وہ ٹارگٹڈ سبسڈیز کے ذریعے بلند قیمتوں کا مقابلہ کرے ساتھ ہی اس بات کویقینی بنایا جائے کہ تاجرسرکاری قیمتوں کی فہرست کی خلاف ورزی نہ کرسکیں۔بہر حال قابل ذکر یہ کہ نئی وفاقی حکومت نے یوٹیلٹی سٹور ز کے ذریعے 7.5بلین روپے کا رمضان ریلیف پیکج شروع کیا ہے جس سے صرف وہی لوگ مستفید ہو سکیں گے جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کیساتھ رجسٹرڈ ہیں،ان سکیموں میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے تاکہ خوراک کا راشن آبادی کے ضرورت مند طبقوں تک پہنچ سکے جبکہ اشیائے خوردونوش کے معیار پر سمجھوتہ نہ کیاجائے، اس طرح کی سکیموں کے علاوہ مقامی انتظامیہ کو بچت بازارلگانے کی بھی ضرورت ہے جہاں پر اشیائے خوردونو ش کے معیار کو برقرار رکھا جائے۔ٹارگٹڈ سکیموں کے علاوہ ریاست کو مقامی سطح پر اپنی قیمتوں کی نگرانی کرنے والی کمیٹیوں کو فعال کرنا چاہئے تاکہ تاجروں کو قلت کے نام پر صارفین کو لوٹنے کاموقع نہ ملے ،اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ رمضان المبارک کے دوران بعض اشیاء کی بہت زیادہ مانگ ہوتی ہے، تاجر بھی قلت کاحیلہ تراش کر اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں،اس منافع خوری کو روکنے کی ضرورت ہے، صوبائی حکومت اس کیلئے فوری طورپر تمام متعلقہ محکموں اور عملے کوفعال بنائے ۔

مزید پڑھیں:  عدلیہ پردبائو؟