صدارتی انتخابات کا پرامن انعقاد

مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی پر مشتمل حکمران اتحاد کے امیدوار آصف علی زرداری بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر پاکستان کے 14ویں صدر مملکت منتخب ہو گئے ہیں جبکہ یہ بطور صدر مملکت آصف زرداری کی دوسری مرتبہ کامیابی ہے، آصف زرداری کو مجموعی طور پر 411 الیکٹورل ووٹ ملے جبکہ ان کے مد مقابل سنی اتحاد کونسل کے امیدوار محمود خان اچکزئی کو 181 الیکٹورل ووٹ پڑے، صدارتی انتخابات کا اہم پہلو یہ ہے کہ محمود خان اچکزئی کو ان کے اپنے ہی آبائی صوبہ بلوچستان سے ایک بھی ووٹ نہیں پڑا، محمود خان اچکزئی نے انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد اپنے بیان میں کہا ہے کہ الیکشن اچھے ماحول میں ہوئے، پہلی بار صدارتی الیکشن میں نہ کوئی ووٹ بیچا گیا نہ خریدا گیا، یہ ایک اچھی رویت پڑھنے کی نشانی ہے، صدر مملکت کے عہدہ جلیلہ پر دوسری بار منتخب ہونے کے بعد صدر آصف زرداری پر اہم ذمہ داریاں عائد ہو گئی ہیں ،کیونکہ یہ ایک ایسا آئینی عہدہ ہے جس کے تقاضے غیر جانبداری اور آئین و قانون کی ان کے تقاضوں کے عین مطابق عمل کرنا ہے، اپنے گزشتہ دور صدارت میں صدر آصف زرداری نے جمہوریت کو مضبوط کرنے اور سابق آمرانہ ادوار میں آئین کیساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے جو غیر جمہوری ترامیم کی گئی تھیں جن کا مقصد متعلقہ آمروں کو مضبوط بنا کر جمہوریت کو کمزور کرنا تھا، جن میں خاص طور پر صدر مملکت کے عہدے کیساتھ منتخب حکومتوں کو بیک جنبش قلم رخصت کرنے کے اختیار کو نتھی کرنا تھا، وہ اور دیگر آمرانہ اختیارات کو از خود پارلیمنٹ کو لوٹانا تھا جس سے نہ صرف ملک میںپارلیمانی طرز حکومت کی واپسی اور اسے پارلیمانی سے صدارتی طرز حکومت میں تبدیل کرنے کے آمرانہ اقدامات کی تنسیخ تھی بلکہ رضاکارانہ طور پر ایسے اقدامات سے صدر زرداری کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوا تھا، بدقسمتی سے مگر 2018 ء کے انتخابات میں ایک ہائبرڈ رجیم کو آر ٹی ایس بٹھا کر ملک پر مسلط کر کے جو کھلواڑ کیا گیا اس رجیم کے تحت نہ صرف صدر مملکت کے عہدے پر” مسلط” کئے جانے والے شخص نے جس طرح اس عہدے کی توقیر کی دھجیاں اڑائیں اور قدم قدم پر اپنی پارٹی کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتے ہوئے اس عہدے کی غیر جانبدارانہ حیثیت کی دھجیاں اڑائیں اور نہایت ڈھٹائی سے اپنی پارٹی کے حق میں اقدام اٹھا کر حسب اختلاف کو دیوار سے لگانے کی حکومتی اقدامات کی بھرپور حمایت کی ،یہاں تک کہ اس نے تحریک حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آنے کے بعد آئینی تقاضوں پر عمل پیرا ہونے کی بجائے” آئین شکنی” کرتے ہوئے اس وقت کے وزیراعظم کی ہدایات پر عمل کیا اور اسمبلی کی تحلیل پر دستخط کئے، اگر اس وقت سپریم کورٹ اس پر صریحاً غیر ائینی اقدام کو نہ روکتی تو سابق صدر اپنے اقدام سے ملک میں ایک ایسے آئینی بحران کو جنم دینے میں کامیاب ہو جاتے جس سے صورتحال انتہائی نازک ہو جاتی، اس کے بعد بھی سابق صدر کے غیر آئینی اقدامات جاری رہے جن کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں، حالانکہ غیر آئینی اقدامات پر سابق صدر کیخلاف سیاسی حلقوں میں آئین شکنی کے مقدمات درج ہونے اور ان کے خلاف تادیبی کارروائی کے حوالے سے بیانات سامنے آتے رہے ہیں، اس کے باوجود اپنے منصب سے رخصت ہونے کے بعد سابق صدر نے جو بیان دیا ہے اس پر” ڈھٹائی اور بے شرمی” جیسے الفاظ کا اطلاق ہونے میں کسی شک و شبہے کا اظہار ممکن نہیں، انہوں نے عوام کی” خدمت باعث فخر” ہونے کے الفاظ میں پناہ لینے کی کوشش کرتے ہوئے گزشتہ چھ سال تک قصر صدارت کے اندر مبینہ سازشوں پر غور کرنے کیلئے اپنے گریبان میں جھانکا ہی نہیں، اس کا سادہ سا جواب یہ بھی ہے کہ ایوان صدر سے رخصتی کے بعد انہوں نے اپنے گھر کراچی جانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی اور اسی رات ملک سے عزم سفر کرتے ہوئے دبئی روانہ ہو گئے، جو ان کے اس خوف کی علامت ہے کہ کہیں ان کیخلاف آئین شکنی کے الزامات کے تحت مقدمات درج کر کے انہیں ملک سے نکلنے پر پابندی نہ لگا دی جائے، بہرحال گزشتہ چھ سال تک عہدہ صدارت کی اس بے توقیری کے بعد نئے منتخب صدر جناب آصف زرداری کے سامنے دو ہی راستے ہیں ایک تو سابق صدر عارف علوی کی ”شرمناک روایات” پر چل کر صدارتی عہدے کی تذلیل کرنا اور دوسرا اپنے سابقہ دور صدارت کی اعلیٰ روایات پر عمل کرتے ہوئے غیر جانبدار رہتے ہوئے جمہوری روایات کو مزید مضبوط اور مستحکم کرنا ،امید ہے کہ اپنی سیاسی تربیت اور قائم کردہ روایات پر چلتے ہوئے جناب آصف زرداری ملک میں جمہوریت کو استحکام دینے میں حسب سابق اپنا کردار ادا کریں گے۔

مزید پڑھیں:  ہراسانی کی کہانی طویل ہے