ڈیڑھ اینٹ کی مسجد

وہ بزرگ شخصیت ایک نجی تقریب میں چند احباب کے گھیرے میں ناصحانہ انداز میں خالص دین اور دین میں پوری طرح داخل ہونے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آپ خود اس امر پرغور کریں اور اس بارے میں پڑھیں کہ آئمہ اربعہ سے پہلے کیا مسلمان نہیں تھے بالکل تھے اور دین کے ہر پہلو پر غور و عمل بھی ہوتا تھا آئمہ اربعہ بھی برحق اور قابل تقلید ہیں اس لئے کہ انہوں نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے ہی دینی معاملات کو اپنی دانست اور علم کی روشنی میں شریعت کے دائرے میں رہ کر ہی مسلک اختیار کئے گستاخی نہ ہوتو بہرحال ایک راہ کے چار راستے ضرور کر لئے گئے اسلام کوئی ٹریفک اور بھیڑ کا نام نہیں کہ چوراہے کی ضرورت پڑے وہ تھوڑی دیر رکے سفید لمبی داڑھی پر ہاتھ پھیر کر دوبارہ آسمان کی طرف دیکھا اور متفکرانہ انداز میں کہنے لگے اس پر بات کرنا ہم جیسے بے علم افراد کا کام نہیں میں تو صرف سمجھانے کے لئے کہہ رہا تھا ورنہ چاروں آئمہ یکساں قابل احترام ہیں جنہوں نے دین پر چلنے کا راستہ سہل اور آسان بنایا کہ ہم جیسے بھیڑ میں کہیں گم نہ ہوجائیں اللہ تعالیٰ نے ان آئمہ کے ذریعے ہی اپنے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک ایک سنت محفوظ کرکے اس پر عمل کا راستہ بنایا اعتراض تو بعد والوںپر ہے آج ایک مسجد میں دیکھیں تو نماز کے بعد جید عالم اور خطیب درس حدیث دین قرآن کی تفسیر بیان کریں اس پر اکتفاء نہیں کیا جاتا تو کونے پر کچھ لوگ کتاب لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور محدود موضوعات پر ان کا مذاکرہ ہوتا ہے یہ بھی درست ہے دین کا مذاکرہ ضروری ہے مگر اسے محدود کئے جانے پر علمائے کرام بھی معترض ہیں کہ دین چند ایک نکات کا نام نہیں اور نہ ہی کسی کو یہ حق دیا جا سکتا ہے کہ وہ دین کو محدود کرے یہ صرف ایک اعتراض کی حد تک بات ہے ورنہ سچی بات تو یہ ہے کہ دین کا کام تو بڑی بات دین کا نام لینا ہی مبارک عمل ہے البتہ بعض اہم شعبوں کونظر انداز کرنے پر خاموش نہیں رہا جا سکتا اس طرف توجہ ضروری ہے کہ یہ لوگ قرآن اور جہاد کو کبھی موضوع نہیں بناتے اور نہ ہی علمائے کرام اس اہم فریضے کو اس طرح کثرت سے موضوع بناتے ہیں جس طرح قرآن مجید میں اس کا کثرت سے ذکر کیا گیا ہے جہاد کی فرصت بارے قرآن میں سب سے زیادہ آیتیں نازل ہوئی ہیں اور ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندگی بھرمیدان جہاد میں رہے ہیں جب مسجد میں جہاد کے موضوع پر جوشیلے مجاہدین خطاب کرنے آتے ہیں تبھی یاد آتا ہے کہ جہاد بھی نماز اور روزے کی طرح کابڑا فرض ہے جہاد میں قتال کا ایمان افروز معرکہ ہم میں سے کتنے مسلمانوں کے دل کی آواز اور ہم اس کے لئے تیار ہیں ہر کسی کو اپنے آپ کو کسوٹی پر خود پرکھ کر جائزہ لینا چاہئے مجھ جیسے ضعیف لوگ تو بس آہیں بھر سکتے ہیں لیکن یہ کافی نہیں کیونکہ معذور ، نابینا اور کمزور لوگوں نے بھی جہاد اور قتال میں حصہ لیتے رہے ہیں جس کی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔ قتال ایمان کوکامل کرنے والی عبادت ہے نہ کر سکیں تو کم از کم اس کی دلی تمنا ہی ہو تو ہونی چاہئے جہاد میں حصہ داری بصورت تقریر و تحریر مال و اسباب اور دیگر طور طریقوں سے ہو سکتی ہے اس کا یاہم میں شعور نہیں یا پھر خدانخواستہ ہمارا ایمان ہی کامل نہیں دکھ کی بات یہ ہے کہ آج ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بہت ہو گئی ہیں دین میں بھی پیشہ واریت لائی گئی ہے ہر کوئی اپنی فہم اور سوچ کے مطابق دیندار اور مسلمان ہے کسی کو بھی دین کے تمام شعبوں کی فکر نہیں اگر ایسا ہوتا تو جو ظلم و ستم غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے ہم بطور مملکت اور بطور امت مسلمہ یوں آرام سے نہ بیٹھے ہوتے ہم دین میں پوری طرح داخل ہوئے ہوتے تو آج مسلمان انحطاط کے اس درجے پر نہ ہوتے پھر انہوں نے کئی اور امور کی طرف بھی اشارہ کیا جس کا تذکرہ ہو تو کچھ لوگوں کو آگ لگ جائے انہوں نے مختلف حوالہ جات اور مثالیں دے کر ہم سب کو اپنے ایمان کو اپنے دل کی کسوٹی پر اپنی سمجھ اور عقیدت کے مطابق پرکھنے کی دعوت دی میرے سمیت سب کی نظریں اور سر دونوں جھکے ہوئے تھے کہ حقیقت بہت تلخ تھی جس کا سامنا مشکل تھا۔انہوں نے ہماری کیفیت بھانپ لی اور کہنے لگے کہ مایوسی کی بات نہیں انسانوں کے پاس اپنی اصلاح کا وقت حال نزع تک رہتا ہے ابھی بھی دیر نہیں ہوئی۔ ضروری نہیں کہ اس محفل کی ساری باتیں درست ہوں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ ساری باتیں درست اور سیاق و سباق کے ساتھ نوٹ کی گئی ہوں مقصد صرف دعوت فکر دینی ہے اسی طرح کی محفلیں غنمیت ہوتی ہیں بہت سی باتیں اکثر اوقات برموقع سمجھ نہیں آتیں مغالطے بھی ہوتے ہیں مگر پھرمغالطے دور بھی ہوتے ہیں اور باتوں کی سمجھ بھی آجاتی ہے بس روشنی کی تلاش جاری رہنی چاہئے حکمت اور راستے کی بھی سمجھ آنے لگتی ہے انسان کو راہ حق کا مسافر ہونا چاہئے کہ تلاش راہ حق کا مسافر کبھی گم گشتہ راہ نہیں ہوتا۔

مزید پڑھیں:  ''روٹی تھما کر چاقو چھیننے کا وقت''؟