اہلِ سیاست ! جوش نہیں ہوش کا مظاہرہ کیجئے

فروری میں منعقد ہونے والے عام انتخابات کے نتائج منقسم ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے دھاندلی کے الزامات درست یا روایتی سیاست کا حصہ جو بھی ہوں یہ امر مسلمہ ہے کہ اس وقت وفاق میں کوئی جماعت تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی اس لئے حکومت سازی کیلئے پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے اتفاق رائے سے مدد ملی۔ اس اتحاد میں ایم کیو ایم اور چند دیگر جماعتیں بھی شامل ہیں۔ چار صوبوں میں سے تین خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف، پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اورسندھ میں پیپلزپارٹی نے اکثریت کی بنا ء پر حکومتیں بنائیں۔ بلوچستان میں پی پی پی اور مسلم لیگ کی مشترکہ حکومت میں چند چھوٹی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ انتخائی نتائج میں ردوبدل کی تقریباً سبھی سیاسی جماعتوں کو شکایت ہے۔ پی ٹی آئی تو تواتر کے ساتھ دعویٰ کررہی ہے کہ اس کے حمایت یافتہ 180 امیدوار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ لیکن دھاندلی سے ان کی تعداد کم کردی گئی لیکن تحریک انصاف کی الزاماتی سیاست اور اس پر اٹھائے گئے بیانیہ کی تاریخ اس الزام کو درست تسلیم کرنے کے مانع ہے۔ بہرطور یہ کہنا بجا ہوگا کہ انتخابی دھاندلی کی شکایات کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیٹی یا جوڈیشل کمیشن بنادیا جاتا تو مناسب ہوتا۔ اپنی شکایات کے پیش نظر پی ٹی آئی نے ایک 6 جماعتیں سیاسی اتحاد کی بنیاد ڈالی ہے بتایا جارہا ہے کہ یہ 6 جماعتی گرینڈ الائنس عیدالفطر کے بعد احتجاجی اجتماعات کے انعقاد سے اپنی تحریک کا آغاز کرے گا۔
الزامات در الزامات کی سیاست سے بنی فضاء میں کوئی سیاسی جماعت اس امر پر توجہ مرکوز نہیں کررہی کہ ملک میں اس وقت عمومی حالات کیا ہیں۔ غالباً اس لئے گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنماء اور وفاقی وزیر مملکت مصدق ملک نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا ”جسے شوق ہے وہ آئے اور حکومت گرادے”۔ مسلم لیگ (ن) کے بعض رہنماء یہ کہتے دیکھائی دیتے ہیں کہ وفاقی حکومت زبردستی ہمارے گلے ڈالی گئی۔ زبردستی کے اس دعوے کی تصدیق مشکل ہے البتہ یہ درست ہے کہ ابتدائی انتخابی نتائج کے بعد مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف اور پی پی پی کے رہنماء سید خورشید شاہ نے تحریک انصاف کو دعوت دی تھی کہ اکثریت کے حوالے سے ان کا دعویٰ درست ہے تو آگے بڑھیں وفاق میں حکومت بنالیں۔ اس مرحلے پر پی پی پی نے یہ پیشکش کی بھی کہ ہماری جماعیت جس طرح مسلم لیگ (ن) سے تعاون کرنے پر تیار ہے پی ٹی آئی اگر حکومت بناتی ہے تو غیرمشروط تعاون کریں گے۔ یہ بیل اس لئے منڈھے نہ چڑھ پائی کہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ارکان قومی اسمبلی کی کل تعداد 88 ہے۔ مندرجہ بالا معروضات کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین اوران کی جماعتوں کو شخصی انا کے خول سے باہر نکل کر زمینی حقائق کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ جہاں تک انتخابی دھاندلی اوربالخصوص انتخابی نتائج بدلے جانے کے حوالے سے تحریک انصاف کے الزامات کاتعلق ہے تو اس حوالے سے یہ سوال اہم ہے کہ انتخابی نتائج بدلنے والوں نے خیبر پختونخوا سے پی ٹی آئی کو صوبائی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت لینے اور صوبے سے قومی اسمبلی کی نشستوں پر واضح اکثریت حاصل کیسے کرنے دی؟ اسی طرح پنجاب میں ان حلقوں سے بھی پی ٹی آئی کیسے جیت گئی جو مسلم لیگ (ن) ک محفوظ حلقے سمجھے جاتے تھے۔
یہ بجا ہے کہ انتخابی عمل اور نتائج سوفیصد شفاف نہیں ہوں گے اس کی دو وجوہات ہیں اولاً تیسری دنیا کے پسماندہ ملکوں میں انتخابی سیاست میں پیسے کا استعمال اور ثانیاً اسٹیبلشمنٹ کی مینجمنٹ پاکستانی تاریخ میں منعقد ہونے والے انتخابات میں سے ایک انتخابات بھی ایسے نہیں جس کے نتائج پر فریقین نے کھلے دل سے اعتماد کیا ہو۔ بہت دور نہ جائیں تو یہ امر دوچند ہے کہ 2013ء اور 2018ء کے انتخابی نتائج متنازعہ تھے۔ 2013ء کے انتخابی نتائج کے حوالے سے تو عمران خان 35 پنچروں کا د عویٰ کرتے رہے ،انہوں نے ان نتائج کے خلاف تحریک بھی چلائی تھی یہ الگ بات کہ ان کی تحریک نے ملکی معیشت کی کمر توڑ دی اور 35 پنچروں والے مؤقف کو انہوں نے ایک دن سیاسی بیان قرار دیدیا۔ حالیہ انتخابات کے بعد عمران خان اور ان کی جماعت کا رویہ اور مؤقف 2013ء والا ہی ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود جس بات کو نظرانداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام کی شدت میں اضافے اور سیاسی قوتوں میں ایک دوسرے کیلئے بڑھتے ہوئے بْعد کی وجہ سے روزمرہ کے مسائل سنگین ہورہے ہیں اسی لئے عمران خان کی اپنی جماعت کو یہ حالیہ ہدایت کہ مسلم لیگ (ن)، پی پی پی اور ایم کیو ایم سے رابطہ ہوگا نہ بات ہوگی پرافسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ایک بار پھر اپنی جماعتی سیاست کو بند گلی میں رکھنے کے خواہش مند ہیں۔ یہ طرز سیاست انہیں اور ملک کو کیا دے گا اس پر بحث اٹھانے کی ضرورت نہیں البتہ یہ حقیقت ہے کہ عوام کے مسائل ہر گزرنے والے دن کے ساتھ گھمبیر ہوتے جارہے ہیں۔

مزید پڑھیں:  عدلیہ پردبائو؟
مزید پڑھیں:  مذاکرات ،سیاسی تقطیب سے نکلنے کا راستہ

سیاسی قیادت بالخصوص پی ٹی آئی کو سمجھناہوگا کہ صرف دشنام طرازی اور شورشرابے کو سیاست کی معراج نہیں کہتے سیاسی عمل میں آگے بڑھنے کیلئے انا کے ہمالیہ سے نیچے اترنا ازبس ضروری ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی قوتیں مل کر مسائل کا حل تلاش کریں۔ ملک کو سیاسی عدم استحکام اور معاشی ابتری سے نجات دلائیں تاکہ جمہوریت دشمن قوتوں کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقع نہ مل سکے۔