p613 197

داخلی انتشار کا خاتمہ ناگزیر

وزیر اعظم عمران خان نے نجی ٹی وی کو دیے گئے اپنے حالیہ انٹرویو میں فوج اور حکومت میں مکمل ہم آہنگی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان پر فوج کا کوئی دبائو نہیں اور نہ ہی فوج نے انہیں کبھی کسی کام سے روکا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے برملا کہا کہ خارجہ پالیسی کے فیصلے میں خود کرتا ہوں’ ان کا مزید کہنا تھا کہ جو باتیں ہماری پارٹی کے منشور میں شامل تھیں ہم نے ان پرعمل درآمد کی پوری کوشش کی ہے ۔ امر وقعہ یہ ہے کہ سیاسی و عسکری قیادت کا یکساں نقطۂ نظر ملکی ترقی کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے’ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت اگر عسکری قیادت کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا دعویٰ کر رہی ہے تو ملک و قوم کے لیے یہ خوش آئند ہے’ کیونکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ سول و ملٹری تعلقات کے حوالے سے ناخوشگوار واقعات سے بھری پڑی ہے’ پاکستان میں سول و ملٹری قیادت کے خوشگوار تعلقات نہ ہونے کا ہمیں بے پناہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ خطے کے دیگر ممالک سے ترقی کی راہ میں پیچھے رہ جانے کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے کہ سیاسی انتشار کے ساتھ ساتھ سول و ملٹری تعلقات کو پنپنے کا موقع نہیں مل سکا’ آج تحریک انصاف کی حکومت میں سیاسی و عسکری قیادت کے ایک پیج پر ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے تو اس کے سیاسی و معاشی اثرات سامنے آنے چاہئیں۔ اس ضمن میں اگر اپوزیشن کی جماعتوںکو تحفظات ہیں تو ایوان میں تحفظات دور کیے جانے کی سنجیدہ کوشش دکھائی دینی چاہیے’ کیونکہ ہماری آپسی لڑائی اور اختلافات کی وجہ سے سیاسی و معاشی نقصانات میں اضافہ ہو رہا ہے’ پاکستان کا ازلی دشمن بھارت ہمارے داخلی مسائل اور سیاسی انتشار پر خوشی کے شادیانے بجا رہا ہے ‘ اسی طرح ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں دیگر سیاسی جماعتوں کے اشتراک سے ملک بھر میں جلسے جلوس کر رہی ہیں’ پاکستان کا اندرونی خلفشار کم ہونے کی بجائے بڑھتا جا رہا ہے’ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ پاکستان کے داخلی انتشار کو کم کرنے کی کہیں کوئی کوشش دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ پاکستان میں جاری سیاسی کشیدگی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ جمہوری و سیاسی قوتیں لچک کا مظاہرہ کریں ‘ اس کا آغاز حکومت کی طرف سے ہونا چاہیے۔ اگر سیاستدان آپسی اختلافات کو باہم بات چیت کے ذریعے حل کر لیں تو جمہوریت کی بالادستی کے راستے میں کسی کو بھی رکاوٹیں کھڑی کرنے کی جرأت نہ ہو گی۔ ملک کو اس وقت مفاہمتی سیاست اور مفاہمتی حکمرانی کی ضرورت ہے ‘ سیاسی کشیدگی اور جارحانہ بیانات صورتحال کو مزید بگاڑنے کا سبب بن رہے ہیں ۔ حالات کا تقاضا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اکابرین جذباتیت کی بجائے تحمل کا مظاہرہ کریں، کیونکہ اگر سیاسی جماعتوں نے ٹکرائو کی یہی روش جاری رکھی تو اندرونی خلفشار مزید بڑھ جائے گا۔ جب تک پاکستان میں داخلی استحکام کی سنجیدہ کوششیں ثمر آور نہیں ہوتی ہیں ‘ پاکستان میں اس وقت تک معاشی و سیاسی استحکام کا خواب پورا نہیں ہو سکتا’ سیاسی عدم استحکام کے باعث حکومت کو اصل مسائل کی طرف توجہ دینے کا موقع نہیں مل پا رہا ہے ،اس لحاظ سے دیکھاجائے تو سیاسی انتشار سے سب سے زیادہ نقصان حکومت کا ہو رہا ہے ،اس لئے سیاسی انتشار کے خاتمے کیلئے کوشش کا آغاز بھی حکومت کی طرف سے ہونا چاہئے کیونکہ دنیا بھر میں جہاں کہیں داخلی انتشار جنم لیتا ہے ‘ وہاں پر اختلافات کو ختم کرنے کا آغاز حکومت کی طرف سے ہی کیا جاتا ہے۔ جمہوری حکومتوں کی حکمت عملی یہ ہوتی ہے کہ حزب اختلاف کے ناراض قائدین کو سیاسی حکمت عملی کے ذریعے مذاکرات کی میز پر لایا جائے’ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کی طرف سے حزب اختلاف کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے کوئی کوشش دکھائی نہیں دیتی ہے بلکہ اس کے برعکس سیاسی تصادم اور مزاحمت کی بات کی جاتی ہے جو اپوزیشن جماعتوں میں مزید انتشار کا باعث بن رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان جس طرح سے سیاسی و عسکری قیادت کو ایک پیج پر لانے میں کامیاب ہوئے ہیں ‘ اسی طرح حزب اختلاف کے تحفظات دور کر کے انہیں ایوان میں لا کر متفقہ طور پر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے، جس طرح عسکری قیادت خارجہ پالیسی میں معاون و مددگار ہے اسی طرح اندرونی حالات پر قابو پانے کے لیے حزب اختلاف کی شراکت اور ہم آہنگی ضروری ہے۔
جرگوں میں قتل کے واقعات کے سدباب کی ضرورت
جرگہ کو پختون معاشرے میں خاصی اہمیت حاصل ہے ‘ معمولی نوعیت کے تنازعات کو ختم کرنے کے لیے صدیوں سے جرگہ کی روایت چلے آ رہی ہے’ لیکن کچھ عرصہ سے جرگے خونریزی کا ذریعہ بنتے جا رہے ہیں اور آئے روز جرگہ میں تصادم و قتل کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ عالمی معاہدے کی رو سے جرگوں کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے’ عدالت نے آئین کے آرٹیکل 4، 8، 10اے 25او ر 175 (3) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جرگے اور پنچائتیں آئین قانون کے دائرے میں رہ کر کام نہیں کرتے ‘ عدالت نے جرگے اور پنچائتوں کو محدود حد تک رہ کر ثالتی’ مذاکرات اور مصالحت کا کردار اد کرنے کی اجازت دی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جرگے اور پنچائت کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ معمولی نوعیت کے لڑائی جھگڑے اور اختلافات کو یونین کونسل اور مقامی سطح پر مذاکرات و ثالثی کے ذریعے حل کیا جائے تاکہ تھانہ کچہری اور عدلیہ پر کم سے کم بوجھ پڑے ‘ لیکن کچھ عرصہ سے جرگوں میں مسلح افراد کی شرکت سے مسائل تنازعات اور قتل و غارت گری کی طرف جا رہے ہیں’ ان واقعات کو دیکھ کر اندازہ ہوتاہے کہ جرگے اپنی افادیت کھو چکے ہیں۔ ایسے حالات میں جرگے منعقد کرنے والے احباب اور جن حجروں میںجرگے منعقد ہوتے ہیں ان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جرگوں میں غیر مسلح افراد کو ہی شریک ہونے دیا جائے اور ممکن ہو تو پولیس کے تحفظ کے بغیر جرگے کا انعقاد نہ کیا جائے تاکہ جرگے میں انصاف کے نام پر مزید انسانی جانوں کے ضیاع کو بچایا جا سکے۔

مزید پڑھیں:  سنگ آمد سخت آمد