p613 202

اجتماعی ذمہ داری

انبیاء کرام اور صحابہ کرام کی توہین کے حوالے سے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے جو ریمارکس دیئے ہیں بلاشبہ اس اُمت کو اور ان مسلمانوں کو مرجانا چاہئے جو توہین رسالتۖ پر کچھ نہ کرسکے۔امرواقعہ یہ ہے کہ اس ضمن میں عدالتوں سے بھی عوام کو شکایات ہیں اور اس طرح کے مقدمات کے ملزموں کیخلاف عدالتی کارروائی سے لیکر ان کے فیصلوں اور ملزمان کے حوالے سے حکومتی رویہ اور بیرونی دبائو میں آنے کے الزامات کوئی نئی بات نہیں۔ بہرحال ان سے قطع نظر اُمت مسلمہ کے کردار وعمل کا جائزہ لیا جائے تو یقینا مایوسی ہی نہیں ہوتی بلکہ مرجانے کو جی چاہتا ہے، البتہ اجتماعی کردار کے برعکس انفرادی طور پر توہین کے مرتکبین کیخلاف شمع بزم رسالت کے پروانوں اور جانثاروں کی قربانیاں قابل قدر ہیں لیکن اصل مسئلہ اجتماعیت، حکومت، عدالت اور جملہ اُمت مسلمہ کے کردار وعمل کا ہے جس میں کمی وکوتاہی توہین کرنے والوں کیلئے موافق اور اس کا جواب دینے والوں سے مخاصمانہ ہے۔ اُمت مسلمہ کا جو تصور ہے اس کاحقیقت کی نظر سے جائزہ لیا جائے تو اُمت مسلمہ بس صرف ایک دعویٰ اور نام ہی نظر آتا ہے۔ اُمت مسلمہ واقعی اُمت مسلمہ ہوتی یا بن جائے اور ایک ہی مرتبہ کفر الحاد کیخلاف خلافت یا کسی اور موزوں صورت میں یا کم ازکم موجودہ ممالک کی سطح پر کوئی ایک مشترکہ ٹھوس اور سنجیدہ آواز ہی بلند ہو جائے تو کفر کے ایوانوں میں اسی دن بھونچال آئے گا۔ ملکی قوانین پر عملدرآمد حکومت اور عدلیہ سبھی کی ذمہ داری ہے، قوانین بھی موجود ہیں مگر اس پر عملدرآمد کی صورتحال کچھ بہتر نہ ہونے کے باعث توہین انبیاء اور توہین صحابہ کا ارتکاب ہوتا ہے۔ اُمت مسلمہ کی سطح پر اور عالمی طور پر صورتحال کا مقابلہ کرنے میں مشکلات ہیں تو ملکی سطح پر تو حکومت عدلیہ بالخصوص اور عوام بھی کسی حد تک مکلف ہیں، جب تک اس حوالے سے ہم ذمہ دارانہ کردار کا مظاہرہ نہیں کرتے اور قانونی احتیاط کیساتھ انصاف کے تقاضوں کو پوری طرح ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے صورتحال سے نہیں نمٹتے اس وقت تک اس طرح کے واقعات کی روک تھام مشکل امر ہے۔
دنیا بھارتی دہشت گردی سے منہ نہ موڑے
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ بھارت کا نشانہ سی پیک، ففتھ جنریشن وار فیر بہت بڑا چیلنج ہے جس سے نمٹنے کا بہتر حل اطلاعات میں شفافیت ہے۔ دنیا بھارتی ریاستی دہشت گردی کے ثبوتوں کو سنجیدہ لے رہی ہے۔انڈیا عالمی برادری کی توجہ ہٹانے کیلئے فالس فلیگ آپریشنز جیسے ڈرامے رچا رہا ہے اورایل او سی معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ خطے کی صورتحال کو نارملائز کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کی دہشت گردی اور خود بھارت میں اقلیتوں کیخلاف ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں معمولی واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے والی مغربی میڈیا اور غیر مسلم ممالک کو بھارت کی دہشت گردی شاید اس لئے نظر نہیں آتی کیونکہ ایک بڑی منڈی ہونے کے باعث بھارت کی طرف سے ان کی آنکھ کی بصارت متاثر ہوئی ہے اور ان کی قوت سماعت بھی بھارت کے حوالے سے کوئی بات سننے کے قابل نہیں۔ بھارت کا سفارتی پروپیگنڈا اور بھارتی میڈیا کی رنگ آمیزیاں تو کوئی پوشیدہ امر نہیں لیکن سب سے بڑا مسئلہ دنیا کے اکثر ممالک کا غیر حقیقت پسندانہ اور پاکستان کیساتھ معاندانہ رویہ ہے۔ بہرحال ان تمام صورتحال کے باوجود پاکستان کا اپنا وزن ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اب حالات تبدیل ہونے لگے ہیں، اب ایسا لگتا ہے اور حالات ایسے پیدا ہورہے ہیں نیزبھارتی کردار کی نوعیت ایسی ہے کہ اسے شاید مزید نظر انداز کیا جانا مغربی دنیا کے مفاد میں نہیں۔ مثال کے طور پر داعش کو موجودہ دور میں مغرب میں سیکورٹی کا سب سے بڑا خطرہ مانا جاتا ہے جبکہ اس عالمی دہشت گرد نیٹ ورک میں بھارتی نژاد افراد کی کثیر شمولیت کی وجہ سے بھارت کو داعش کے نئے چہرے سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ بھارت اور داعش کے تعلق پر اکتوبر کے پہلے ہفتے میں فارن پالیسی میگزین ایک جامع تجزیاتی تحقیقاتی رپورٹ شائع کر چکا ہے جس کے بعد عالمی پریس میں بھارت اور عالمی دہشت گردی کے تعلق پر متعدد تحریریں سامنے آ چکی ہیں۔ بھارتی سپانسرڈ دہشت گردی افغانستان میں گہری بنیادیں قائم کر چکی ہے۔ دہشت گردی کے ان منصوبوں کا بنیادی ہدف اگرچہ پاکستان ہے مگر افغانستان بھی اس سے محفوظ نہیں، افغانستان میں سکھوں کی محدود سی اقلیت پر رواں سال مارچ میں حملہ کیا گیا جس میں25افراد مارے گئے تھے حملہ آور کا تعلق بھارت سے تھا۔ 2016-18 کے دوران بھارت سے کم و بیش 100افراد کے افغانستان جانے اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کی تصدیق تو خود بھارتی میڈیا کر چکا ہے۔ انڈین سپانسرڈ عالمی دہشت گردی کے ان حقائق سے دنیا بہت دیر آنکھیں بند کیے رہی صرف بھارت سے منسلک سٹریٹیجک اور فنانشل مفادات کی غرض سے تاہم یہ صورتحال اب جس قدر خطرناک ہو چکی ہے کہ مزید غفلت دنیا کے رہے سہے امن کو بھی ملیامیٹ کرکے رکھ دے گی۔ پاکستان کو جہاں بھارت کو ہر پلیٹ فارم پر بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے وہاں معاشی طور پر بھی خود کو اس قدر مستحکم کرنے پر توجہ کی ضرورت ہے کہ اسے نظر انداز نہ کیا جاسکے۔

مزید پڑھیں:  سیاست اپنی جگہ صوبے کا مفاد مقدم