logo 52

علماء سے تعاون کے حصول میں تاخیر نہ کی جائے

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ مساجد کو کسی صورت بند نہیں کیا جاسکتا تاہم کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کی تاکید ضروری ہے۔مساجد کی بند نہ کرنے کے حوالے سے وزیراعظم کا بیان مثبت ضرور ہے لیکن وزیراعظم کی جانب سے علمائے کرام سے خصوصی ملاقات اور ان سے مشاورت اور تعاون حاصل کر کے کورونا سے بچائو اور مدافعت کے جس عمل کی ضرورت ہے اس میں تاخیر اور کوتاہی نظر آتی ہے۔اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان میں منبر سے کہی ہوئی بات اورعلمائے کرام کی تلقین ورہنمائی سب سے مئوثر اور عوام کیلئے قابل تسلیم عمل ہے گزشتہ لہر کے موقع پر اگر کہیں کورونا سے بچائو کے احتیاط کے طے شدہ طریقہ کار پر اگر کہیں عمل ہوا ہے تو وہ صرف اور صرف مساجد ہی تھے جبکہ اگر کسی طبقے نے اس ضمن میں سنجیدہ طرز عمل اختیار کیا اور دوسروں کو مئوثر انداز میں ترغیب دی تو وہ بھی علمائے کرام ہی تھے علماء نے اسلامی تاریخ میں پہلی مرتبہ صفوں میں فاصلہ رکھنے کے حوالے سے اجتہاد کیا اور جب تک کورونا وائرس کے پھیلائو کا زور ٹوٹا نہیں رمضان المبارک اور عید الفطر کے موقع پر بھی علماء کے طے شدہ طریقہ کار پر ٹھوس بنیادوں پرعملدرآمد کیا گیا۔اس وقت بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک مرتبہ پھر علمائے کرام سے رجوع کیا جائے جہاں تک مساجد کی بندش کا تعلق ہے اس کا فیصلہ حکومت نے نہیں کرنا ہے اور نہ ہی حکومت کے اس طرح کے کسی فیصلے کی کوئی وقعت ہوگی مساجد کو کسی طرح بند نہیں کیا جا سکتا اور حکومت لوگوں کے مذہبی عقائد اور معاملات میں مداخلت کا حق بھی نہیں رکھتی خدانخواستہ کوئی سنگین صورتحال پیش آئے تو نمازیوں کی تعداد محدود کرنے کا فیصلہ بھی علمائے کرام ہی کریں گے۔
ٹریفک مسائل میں کمی لانے کے تقاضے
چنگ چی رکشوں کو محدود کرنے کے حوالے سے عوامی مطالبہ بار بار ہوتا رہا ہے لیکن چنگ چی رکشوں سے ہونے والے حادثات،نوعمر ڈرائیوروں کے باعث دوسروں کی زندگیوں کو درپیش خطرات اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی اوررکاوٹوں کے باوجود اس پر توجہ نہیں دی گئی بالآخر صوبائی حکومت نے ان کو محدود کرنے کی ہدایت کی ہے دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ وہ قواعد وضوابط ہیں جو رواں برس اکیس جولائی کو منظور کئے گئے مگر ان پر عملدرآمدسال کے آخری مہینے کے ابتدائی عشرے کے وسط میں حکومت کو ان پر عملدرآمد کا خیال آیا یہی وہ رویہ اور طرز عمل ہے جس کے باعث حکومتی عملداری مذاق قوانین قواعد وضوابط اور معاملات غیر سنجیدہ بن جاتے ہیں صوبائی حکومت کو اپنے ہی طے کردہ قواعد وضوابط پر عملدرآمد میں اتنی تاخیر کیوں ہوتی اتنا عرصہ ان کو کھل کر کھیلنے کا موقع کیوں دیا گیا اس کی وضاحت ہونی چاہیئے اب بھی غنیمت ہوگی اگر حکومت ان کو محدود کر سکے اور ٹریفک قوانین کا پابند بناسکے۔دیکھا جائے تو بی آرٹی کے فیڈر روٹ چلنے سے اب ان کی افادیت بھی کم ہورہی ہے جن جن علاقوں میں فیڈر روٹس چلائی جائیں گی چنگ چی رکشوں سوزوکیوں اور ٹیکسی کا احتجاج خود بخود کم ہوگا اور سواریاں نہ ملنے کے باعث ان لوگوں کو مجبوراً شہر کے وسطی علاقے چھوڑ کر مضافاتی علاقوں کو شفٹ ہونا پڑے گا۔حیات آباد کے بعد کوہاٹ روڈ سے فیڈر روٹ چلانے کی تیاریاں خوش آئند ہیں بہرحال اس سے قطع نظر حکومت صرف چنگ چی بلکہ غیر قانونی رکشہ اور بغیر پرمٹ ٹیکسی چلانے کی بھی روک تھام کرے اور ٹریفک کا مسئلہ سنجیدگی سے حل کر کے شہریوں کی مشکلات میں کمی لانے کی سعی کرے۔
وزیراعلیٰ کو نوٹس لینا چاہیئے
مردان میں مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بننے والی خاتون کی پشاور پریس کلب آکر فریاد اور ایک رکن اسمبلی پر ملزموں کی پشت پناہی کرنے کا الزام نیز پولیس کی جانب سے رپورٹ درج کرانے کے باوجود کارروائی سے گریز کے الزامات سنگین اور افسوسناک ہیں جن کی تصدیق کے بعد ملزمان کے خلاف کارروائی ہی نہیں بلکہ متعلقہ پولیس سٹیشن کے عملے کے خلاف قصوروار ہونے کی صورت میں سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔اس طرح کے واقعات کی معاشرے میں عام ہونے کی جہاں دیگر وجوہات وہاں قانون کے رکھوالوں اور عوامی نمائندوں کی مظلوم کی داد رسی کی بجائے ظالم کی سرپرستی ہے جس کی کسی طور گنجائش نہیں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو اس امر کا خصوصی نوٹس لیکر متعلقہ رکن اسمبلی کو اس اقدام سے باز رکھنے اور پولیس کے خلاف کارروائی کا حکم دینے کی ضرورت ہے۔آئی جی خیبر پختونخوا جتنا جلد اس مسئلے کا نوٹس لیں اور حقائق کی روشنی میں کارروائی یقینی بنائیں تو بہتر ہوگا۔توقع کی جانی چاہیئے کہ حکام اس مسئلے کا جلد نوٹس لیں گے اورظلم کا تدارک کرتے ہوئے مظلوم کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔

مزید پڑھیں:  بے جے پی کی''کیموفلاج''حکمت عملی