logo 52

کورونا کی دوسری لہر اور سیاستدانون کی ضد

ملک بھرمیں کوروناوائرس کی دوسری لہرانتہائی خطرناک صورت اختیارکرتی جا رہی ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں کورونا سے مریضوں کی اموات میں بھی مزید شدت پیدا ہوگئی ہے ، جمعہ کے روز مسلسل دوسرے دن بھی پشاور میں سات افراد جبکہ تین اضلاع ڈیرہ، کوہاٹ اور ایبٹ آباد میں ایک، ایک مریض کوروناسے چل بسا۔ صوبے کے مختلف اضلاع میں مزید 419افراد میں وائرس کی تشخیص ہوئی ہے جس کے بعد صوبے میں کورونا کی دوسری لہر کے دوران متاثر ہونے والے افراد کی تعداد34سو45ہوگئی ہے نئے تشخیص ہونے والے تمام افراد کو گھروں پر آئسولیٹ جبکہ671افراد کو گزشتہ روز کلیئر کردیا گیا ہے ۔کورونا کی وجہ سے پارلیمنٹ ہائوس بند ہونے کے ساتھ ہی اٹھارہ دسمبرتک تمام پارلیمانی کمیٹیوں ، قائمہ کمیٹیوں ، پبلک اکائونٹس کمیٹی اورذیلی کمیٹیوںکے اجلاس منسوخ کردیئے گئے ہیں تاہم حیرت انگیز طور پر پارلیمنٹ کی بندش کے باوجود سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے جمعہ کو خیبر پختونخوا میں سی پیک کے منصوبوں سے متعلق ایک خصوصی کمیٹی اجلاس کی صدارت کی حالانکہ سپیکر نے خود قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کو بند کرنے کے احکامات جاری کئے تھے ۔دریں اثناء فافن اور ٹرسٹ فارڈیمو کریٹک ایجوکیشن اینڈ کائونٹبیلٹی کی کوویڈ19 پرپہلی رسپانس مانیٹرنگ رپورٹ جاری کردی گئی ہے۔فافن کارپورٹ میں کہنا ہے کہ کورونا کی دوسری لہر کے دوران سیاست بازی اور ایس او پیز پر عملدرآمد کا فقدان بڑے پالیسی چیلنج کا سبب بن سکتا ہے ۔اگر توجہ نہ دی گئی تو کورونا کی پہلی لہر کے دوران حاصل ہونے والی کامیابی ضائع ہو سکتی ہے۔حکومت کے خلاف جاری حزب اختلاف کی تحریک کے نتیجے میں اکتوبر کے دوران وبا کی قانونی نگرانی کم جبکہ سیاسی اقدامات زیادہ کئے گئے ۔پالیسی اور عمل درآمد کی سطح پر صحت سے متعلق گورننس کے سنگین چیلنجوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔رپورٹ کے مطابق حکومت کی طرف سے مزید سنجیدہ اور خصوصی اقدامات ناگزیر ہیں۔فرنٹ لائن پر مرض کا مقابلہ کرنے والوں اور دیگر متعلقہ شراکت داروں کی استعداد کار کو فروغ دینا ناگزیر ہے۔کورونا مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ سے ٹیسٹوں کے فقدان ،قرنطینہ کی صلاحیت اور وینٹی لیٹرز جیسی اہم ضرورتوں کی شدید کمی کا خدشہ ہے۔کوروناکی جاری صورتحال اور اس حوالے سے فافن کی کویڈ19 سے پیدا شدہ صورتحال کے حوالے سے رپورٹ چشم کشا ہے رپورٹ میں جن امور کی نشاندہی کی گئی ہے اس کی روشنی میں حکومت اور حزب اختلاف دونوں کا چہرہ عوام کے سامنے واضح ہے سب سے سنگین امر یہ ہے کہ کورونا کے پھیلائو میں تیزی سے اضافہ اوراموات کی شرح بڑھ رہی ہے جبکہ دوسری تشویشناک بات پہلی لہر کے دوران اٹھائے گئے اقدامات کے لاحاصل ہونے کا خدشہ ہے اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ پہلی لہر کے دوران ملک وقوم کو ذاتی اور اجتماعی طبی ومعاشی سطح پر مشکلات کے باوجود کس قدر قربانیاں دینی پڑی تھیں جو ہمارا اجتماعی رویہ ہے اور خاص طور پر سیاسی سائیڈ پر جو سرگرمیاں اور خلافت ورزیاں جاری ہیں ان کو صرف حزب اختلاف ہی کی سطح یا صرف ان کی طرف سے ہی فرض کرلینا قرین انصاف نہیں حقیقت یہ ہے کہ حکومت سیاسی اجتماعات سے تو اجتناب کر رہی ہے مگر تقریبات کا انعقاد اور محدود اجتماعات اور اس قسم کی دیگر سر گرمیاں جاری ہیں طرفہ تماشا یہ ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی جیسے آئینی ادارے کے سربراہ کی جانب سے بھی خلاف ورزیاں سامنے آئی ہیں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے تو حکومت کی ضد میں ہر حد سے گزرجانے کی ٹھان لی ہے ملک میں لوگوں کی زندگیاں دائو پر لگی ہوئی ہیں مہنگائی اور بیروزگاری اور اب کورونا کے باعث پوری معیشت دائو پر ہے لیکن حکومت اور حزب اختلاف کے رویوں پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا ہم ہر طرف سے انحطاط اور مشکلات کی طرف بڑھ رہے ہیں اس زیاں کا کسی کو سرے سے احساس ہی نہ ہونا المیہ ہے۔حکومت اور حزب اختلاف دونوں عوام کے نام پر جو کھیل کھیل رہے ہیں اگر ان کو واقعی عوام کا احساس ہے تو معاملات کا سیاسی حل نکالنے کی کوشش کریں عوام کی مہنگائی کے باعث دائو پر لگی زندگی کو کورونا کی نذر ہونے سے بچائیں۔

مزید پڑھیں:  چھوٹے کام ، بڑا اثر!