3 257

ہماری بے حسی کب ختم ہوگی؟

کورونا بتدریج پھیلتا چلا جارہا ہے، اموات کا سلسلہ بھی روزبروز بڑھ رہا ہے، کچھ کورونا کے وار اور کچھ ہماری غفلت! خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں آکسیجن ختم ہوجانے سے 6قیمتی جانیں ضائع ہوگئی ہیں، تحقیقاتی کمیٹی قائم ہوگئی ہے، غفلت کے مرتکب افراد کیخلاف ایکشن لینے کے دعوے بھی کئے جارہے ہیں۔ شاید دو چار لوگوں کو سزا بھی ہوجائے، انسانی جان اتنی سستی تو نہیں ہے، اس طرح کی غفلت کے مظاہرے ہر روز مختلف ہسپتالوں میں دیکھنے کو ملتے ہیں، قیمتی جانوں کے ضیاع کے بعد معاملہ رفع دفع کردیا جاتا ہے، ہماری بے حسی ختم ہونے میں نہیں آتی، سزا اور جزا کا وہ نظام ہم قائم ہی نہیں کرسکے کہ کسی کے دل میں خوف ہوتا ذمہ دار لوگ احتیاط کرتے، ہسپتال اتنی حساس جگہ ہے کہ جہاں معمولی سی غفلت سے انسانی جان ضائع ہوجاتی ہے یہاں تو حددرجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس طرح کے حادثات پہلے بھی پیش آتے رہے ہیں اور پھر بھی ہوتے رہیں گے لیکن ہم نے ان روح فرسا حادثات سے کچھ بھی نہیں سیکھنا، ہمیں سکھانے کی ضرورت ہے روحانی تربیت کا شدید فقدان ہے، قانون تو موجود ہے لیکن اس پر عمل درآمد کروانے کیلئے جس کردار کی ضرورت ہے وہ ناپید ہے۔ زندگی ایک دوسرے کے دکھ بٹانے کا نام ہے، محبت سے کسی کا ہاتھ پکڑ لیا جائے پیار کے دو بول بول کر کسی کی دلجوئی کر لی جائے، اپنے وسائل میں رہتے ہوئے کسی کی جانی ومالی امداد کر لی جائے، تو یہی زندگی ہے۔ ہمیں مرنا یاد نہیں رہا، ہمارے اندر یہ احساس ہی نہیں رہا کہ ایک دن ہم نے بھی رخصت ہونا ہے، آج وہ رخصت ہوئے تو کل ہماری باری ہے لیکن یہ احساس نصیحتوں سے نہیں جگایا جاسکتا اس کیلئے قانون کے جابر ہاتھ کی ضرورت ہے، ایسے کردار کی ضرورت ہے جو قانون کے نفاذ کو ممکن بنا سکے۔ ہمیں دو چار مرتبہ میت کو نہلانے کا موقع ملا یوں کہہ سکتے ہیں کہ جو صاحب میت کو نہلا رہے تھے ان کی مدد کی، انہیں گرم پانی کا لوٹا دیدیا، میت کے جسم پر پانی ڈالا، میت کے کپڑے اُتارنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے اس لئے قینچی کیساتھ کاٹ دئیے جاتے ہیں، مردے کے کانوں اور ناک میں روئی رکھ دی جاتی ہے تاکہ پانی اندر نہ جاسکے اسے غسل دیتے وقت پردے کا بہت خیال رکھا جاتا ہے، میت آپ کے رحم وکرم پر ہوتی ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ مردہ بدست زندہ! دنیا میں اس کا کتنا رعب اور دبدبہ ہوتا ہے لیکن مرنے کے بعد وہ دوسروں کا محتاج ہوجاتا ہے، اس کے لواحقین کی سب سے اہم ذمہ داری یہی ہوتی ہے کہ اسے اس کے آخری سفر پر روانہ کرکے اپنے فرض سے سبکدوش ہوجائیں، اسے قبر کے سپرد کرکے سب واپس آجاتے ہیں۔ میت کیساتھ صرف اور صرف اس کے اعمال رہ جاتے ہیں، دنیا میں اس نے جو اچھے کام کئے ہوتے ہیں، اب وہی اس کے کام آتے ہیں، اگر کسی کا حق چھینا تھا تو اب اسے جواب دہی کرنی پڑے گی، اولاد کو قرآن پاک میں اسی لئے آزمائش کہا گیا ہے کہ لوگ اولاد کیلئے ہی سب کچھ کرتے ہیں، اگر ایک لمحے کیلئے یہ سوچ لیا جائے کہ دنیا کے سارے رشتے عارضی ہیں، اولاد کا اور ہمارا ساتھ بہت جلد چھوٹ جائے گا، موت کے بعد ایک نہ ختم ہونے والی زندگی کا سامنا کرنا ہے جس میں ہم سے ہمارے تمام اعمال کی بازپرس ہوگی، وہاں اولاد، دوست، رشتہ دار کوئی کام نہیں آئیں گے تو شاید ہم میں سے کوئی بھی کسی کیساتھ زیادتی نہ کرے، کسی کا حق نہ چھینے، مخلوق خدا کو دھوکا نہ دے۔ تختے پر پڑی ہوئی میت سے بڑی نصیحت کوئی نہیں ہوسکتی، رحمان بابا فرماتے ہیں کہ جب ایک زندہ انسان کسی مردہ انسان کی قبر پر جاتا ہے تو دنیا میں یہی نصیحت کافی ہے اب اس کے بعد کیا گنجائش رہ جاتی ہے کہ انسان کسی کو سمجھانے کیلئے بڑے بڑے لیکچر دے، بس موت کو یاد رکھا جائے تو دوسروں کا احساس بھی پیدا ہوگا اور فرائض میں غفلت بھی نہیں ہوگی۔ بزرگ اس کیفیت کو موت سے پہلے موت کہتے ہیں یعنی زندگی ہر وقت موت کو یاد کرتے ہوئے گزاری جائے لیکن ہمیں تو سب کچھ یاد ہے سوائے موت کے۔ مولانا روم نے اس کیفیت کو ایک بڑی خوبصورت مثال سے سمجھایا ہے، آپ فرماتے ہیں کہ دریا زندہ انسان کو ڈبو دیتا ہے لیکن لاش کو نہیں ڈبوتا، جب انسان مرجاتا ہے تو اس کی لاش سطح آب پر آجاتی ہے، یہ اپنے نفس کے تکبر اپنی ‘میں’ کو ختم کرنے والی بات ہے اور اسی میں کامیابی ہے، ہماری ساری زندگی ”میں میں” کرتے گزر جاتی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا کا سارا کاروبار ہمارے ہی دم سے چل رہا ہے، نفس کا یہ غرور ہمیں شدید قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا کردیتا ہے، ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ انسانی زندگی میں کردار کی بڑی اہمیت ہے۔ ہمارے روئیے اور اخلاق کی بنیاد ہی وہ زاویہ ہے جس سے ہم چیزوں یا معاملات کو دیکھتے ہیں، جب تک ہم اپنے اندر احساس ذمہ داری پیدا نہیں کریں گے جب تک سزا اور جزا کا نظام مضبوط نہیں ہوگا اس طرح کے حادثات پیش آتے رہیں گے۔ ہمیں چیزوں کو مثبت انداز سے دیکھنے کی عادت اپنانی چاہئے، یہ دیکھنے کا وہ بنیادی انداز ہے جس سے ہماری سوچ بدل جاتی ہے، رویہ بدل جاتا ہے، یہ وہ عادت ہے جو ہماری سوچ کو نئے زاوئیے عطا کرتی ہے جس سے ہماری شخصیت میں ایک خوبصورت انقلاب آجاتا ہے۔

مزید پڑھیں:  ملاکنڈ ، سابقہ قبائلی اضلاع اور ٹیکس