p613 205

مشرقیات

تاتاریوںکے مظالم سے کون ناواقف ہے۔ ایک بار سلطان علائو الدین خلجی کی فوج تاتاری لشکر کے مد مقابل ہوئی ۔ شاہی فوج کا سردار ظفر خان تھا۔ جو اپنی شجاعت کی وجہ سے رستم وقت کہلاتا تھا۔ اس نے لڑائی لڑنے سے پہلے ساری فوج کے سرداروں کو اکٹھا کیااور ان کو کہا: اے سرداران سپاہ! میدان جنگ میں کون سی تدبیر اختیار کرنی چاہئے ۔ا گر ہم ان کفار سے جان بچا کر فرار ہوجائیں تو ہم اپنے سلطان کو کیا منہ دکھائیں گے اور اگر ہم لڑنے پر آمادہ ہوجائیں تو دس ہزار فوج کے مقابلے میں ہمارے پاس ایک ہزار فوج ہے ۔ ہم عجب کشمکش میں ہیں دو بھیڑیوں کے درمیان ایک بھیڑا گئی ہے نہ پیچھے اور نہ لڑانے لڑنے میں چین ہے ۔ لیکن میں وہی کروں گا۔ جو ا س مجلس میں آزمودہ کار اصحاب مجھ کو کرنے کو کہیں گے۔ اس تقریر کو سن کر اصحاب نے کہا: اے ظفر خان ! تاتاریوں کو پسپا کرنے میں تمہاری بہادری بہت دور تک پہنچ چکی ہے ۔ اس لئے اگر تم لڑائی کے بغیر سلطان کے پاس گئے تو تمہاری شان میں کمی نہ ہوگی اور سلطان تم سے خوش ہی ہوگا۔ ظفر خان شجاعت ، بہادری اورمعرکہ آرائی کے لئے اپنے زمانے میں بہت مشہور ہوچکا تھا۔ اس کو اپنے فوجی سرداروں کا جواب پسند نہ آیا۔ اس نے ان کومخاطب کر کے کہا” جب ایک دن مرنا ہے تو دشمن پر حملہ کر کے مرنا بہتر ہے۔ میں اس ہندوستان میں ناموروں کی موت مروں گا اور آج کی لڑائی میں جان دوں گا۔ تاکہ میرا نام تاریخ میں زندہ رہے جو شخص اس نازک موقع پر وفادار رہنے کا ارادہ رکھتا ہے تو وہ فوجیوں کے ساتھ آگے بڑھے تاکہ مہر ووفا کی کتاب میں اس کانام باقی رہے اور جولوٹنا چاہتے ہیں وہ واپس جائیں۔ظفر خان کی یہ پراثر تقریر سن کر تمام فوجی لڑائی کے لئے تیار ہوگئے اور ایک زبان ہو کر بولے کہ ہم جان دینے اور آگ میں کود نے کے لئے تیار ہیں۔ دشمنوں سے لڑائی شروع ہوئی توظفر خان جنگی ہاتھیوں کو لے کر آگے بڑھا۔ جن کے خوفناک حملوں کے ساتھ سوار بھی گھوڑے اڑا کر دشمن پر جاٹوٹے حملہ آور ہاتھیوں کی بلائے سیاہ سے بالکل ہی ناواقف تھے وہ اپنی خونخواری اور گریز پائی کے باوجود ہاتھیوں کا مقابلہ نہ کرسکے۔اس سے ان کی صفوں میں انتشار پھیلا تو شاہی سوار خون خوار حملہ آوروں کو دھکیل دھکیل کر تہہ تیغ کرنے لگے اور جب ان کے کشتوں کا پشتہ لگ گیا تو میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ ظفر خان اپنے جوش میں ان کو مارتا کاٹتا اٹھارہ کوس تک پیچھے ہٹا لے گیا۔ لیکن بالآخر شہید ہوگیا۔ ظفر خان کی اس شجاعت وبہادری کی دھاک تاتاریوں پر ایسی جمی کہ اگر کسی تاتاری لشکر ی کاگھوڑا پانی نہ پیتا تو وہ گھوڑے سے کہتا کہ تو نے ظفر خان کو دیکھ لیا ہے۔انسان صبر اور ہمت سے کام لے اور صبروتحمل کے ساتھ اپنے مقصد پر ڈٹا رہے تو کبھی ناکام نہیں ہوتا۔

مزید پڑھیں:  ایرانی قوم کے ساتھ اظہار یکجہتی