A wasim khattak 1

ضلع کرک تبدیلی کی ”ت” سے بھی دور

ضلع کرک کا شمار تعلیم کے میدان میں نمایاں ہونے کیساتھ ساتھ امیر ضلعوں میں بھی ہوتا ہے کیونکہ گزشتہ بیس سالوں سے ضلع کرک کو رائیلٹی کی مد میں اربوں روپے ملے ہیں، وہ الگ بات ہے کہ یہ اربوں کی رقم علاقے کی ترقی پر خرچ نہیں ہوئی بلکہ ایم این اے اور ایم پی اے کے ہاتھوں سے ہوتے ہوئے پتہ ہی نہیں چلا کہ یہ فنڈز کہاں خرچ ہوئے، نہ اس پر کوئی انکوائری رپورٹ پیش ہوئی نہ ہی کہیں سے ایکشن لیا گیا حالانکہ کروڈ آئل کی سب سے بڑی چوری یہاں ریکارڈ ہوئی جس کے بارے میں بھی حکومت کی جانب سے خاموشی اختیار کی گئی۔ اس میں سیاستدانوں سمیت بڑے بڑے نام سامنے آئے، دنیا کی واحد یونیورسٹی خوشحال خان خٹک یونیورسٹی کی تعمیر بھی آئل اور گیس کی رائیلٹی سے کی گئی، جس کیلئے سالانہ کی بنیاد پر ایک ارب کے قریب رقم مختص ہے جو کب تک دئیے جائیں گے اس کا کوئی علم نہیں ہے۔ جس طرح کالم کے شروع میں عرض کر چکا کہ یہ علاقہ تعلیم کے حوالے سے جانا جاتا ہے، ہر شعبہ میں آپ کو کرک کے خٹک اچھے عہدوں پر تعینات ملیں گے، لیکن اس علاقہ میں آج بھی بنیادی سہولتیں ناپید ہیں، مثلاً کوئی سپورٹس کمپلیکس نہیں، کوئی سنیما نہیں، گیس کی بھی فروانی نہیں حالانکہ گیس اس علاقے کی پیداوار ہے جس پر آئے روز اہالیان علاقہ احتجاج پر مجبور ہوتے ہیں کہ ہماری گیس یہاں سے ہوتے ہوئے پنجاب پہنچ رہی ہے مگر ہم اہل علاقہ اس نعمت سے محروم ہیں اور کوئی شنوائی بھی نہیں ہو رہی، بجلی کا بھی وہی حال ہے جو گیس کا ہے، پانی تو یہاں کا مسئلہ نمبر ایک ہے ہی، باقی تعلیمی اداروں میں ناکافی سہولیات کے باوجود بچے پڑھتے ہیں اور اعلیٰ مقاموں پر پہنچ جاتے ہیں۔ہر الیکشن میں یہاں سے دو ایم پی اے اور ایک ایم این اے منتخب ہوتا ہے، تمام سیاسی پارٹیوں کے جان نثار ورکرز یہاں پر پائے جاتے ہیں مگر دودہائیوں سے پاکستان تحریک انصاف کو یہاں کے مکین زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور سب سے پہلی سیٹ عمران خان کو میاں نثار گل کاکا خیل کی صورت میں اس ضلع سے ملی تھی۔ اس کے بعد چونکہ بائیکاٹ کیا گیا اس لئے پی ٹی آئی الیکشن سے باہر ہوئی پھر اس کے بعد انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو ہی کامیابی نصیب ہوئی۔ پی ٹی آئی کے پہلے ہی سے منشور میں شامل تھا کہ تبدیلی لائی جائے گی اس لئے اس تبدیلی کا طوطی ضلع کرک میں بھی بولتا رہا۔ ایک طرف تبدیلی سرکار کی حکومت تو دوسری جانب رائیلٹی کی مد میں صوبے اور وفاق سے ضلع کرک کو ایک مخصوص رقم کا ملنی تھی۔ اگر دیکھا جائے تو اس ضلع کو تیل کی مجموعی پیداوار کا55 اور گیس کا 10فیصد حصہ ملتا ہے مگر 3500مربع کلو میٹر پر پھیلے ہوئے اس ضلع کے تین تحصیلوں میں گیس کے غیرقانونی کنکشن لگے ہوئے ہیں جس میں بڑی غلطی گیس کی کمپنی ایس این جی پی ایل کی ہے۔ کچھ عرصہ قبل سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ کے جنرل منیجر نے بھی اعتراف کیا تھا کہ ضلع میں گیس کے پانچ ہزار300 قانونی، جبکہ 70ہزار غیرقانونی کنکشنز ہیں جس میں وقت کیساتھ ساتھ کمی کی بجائے اضافہ ہورہا ہے کیونکہ گیس کمپنی کی جانب سے کام سست روی کا شکار ہے۔ موجودہ حکومت نے ضلع کرک میں قانونی گیس کنکشن لگانے پر ساڑھے 7ارب روپے خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جس کے مطابق پہلے مرحلے میں ایک ارب 10کروڑ روپے خرچ ہوں گے، باقی رقم فیز ٹو اور تھری میں خرچ کئے جائیں گے، ہم چونکہ تحصیل بانڈہ دادشاہ کے رہائشی ہیں جہاں ابھی تک کوئی بھی ترقیاتی کام نہیں ہوا ہے، ابھی تک ٹیری جیسے بڑے قصبے کے ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹر کی تعیناتی تک نہیں ہوئی باقی کام تو دور کی بات ہے۔ گرگری ٹو ٹیری سڑک سالوں سے خراب پڑی ہے اور یہ سڑک ہر سیاسی پارٹی کی اولین ترجیحات میں شامل ہوتی ہے مگر الیکشن کے بعد سے اب تک صرف سننے میں آرہا ہے کہ سڑک بنے گی، گزشتہ روز پانچ سال کے بعد اپنے ضلع کرک کے تحصیل جانے کا موقع ملا، نری پنوس کی سڑک پر کرک جاتے ہوئے احساس ہوا کہ ہم ابھی تک80 کی دہائی میں رہ رہے ہیں، جس سڑک پر اپنے دادا جان کیساتھ کرک جایا کرتے تھے اس کی آج بھی وہی صورت ہے۔ کرک پہنچتے ہی احساس ہوا کہ یہاں تو تبدیلی کا دور دور تک کوئی نام ونشان نہیں ہے جیسے پہلے تھا اب بھی ویسے کا ویسا ہے۔ صرف چند ہی طبقات مزوں میں ہیں، جیسے سیاستدانوں کے پاس اپنی کوٹھی اور بنگلہ ہے، وہ بھی اسلام آباد اور پشاور میں جبکہ لوگ اب بھی تھانہ کچہریوں میں انصاف کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کا دن پولیس کے پاس درخواستیں جمع کرانے میں گزر جاتا ہے، یہاں کے ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی ہے، علاقے میں کوئی کارخانہ ابھی تک نہیں لگایا گیا، رائیلٹی کی مد میں صرف یونیورسٹی ہی بنی ہے اس کی بھی اپنی عمارت نہیں ہے، پورے علاقے میں سڑکوں کا برا حال ہے، ہم گیس اور بجلی کے احتجاج کور کرتے کرتے تھک گئے ہیں مگر کوئی مثبت حل نہیں نکل رہا، اب تو علاقے کے لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ابھی تک ضلع کرک تبدیلی کی ت تک بھی نہیں پہنچا ہے۔

مزید پڑھیں:  صحرا میں اذاں دے رہا ہوں