2 54

مشرقیات

اصفہان کے شاہی خاندان کے ایک نوجوان نے حضرت شیخ ابو الحسن نوری کی شہرت سنی تو اسے آپ سے ملنے کا اس قدر شوق پیدا ہوا کہ وہ بغداد جانے کے لئے بے قرار رہنے لگا۔ شاہ اصفہان نے نوجوان کی یہ حالت دیکھ کر کہا، تم شاہوں کی اولاد ہو تمہیں فقیروں سے کیا نسبت۔ شیخ نوری کی طرف میرا دل کھینچا جارہا ہے، میں اپنے آپ کو بہت مجبور پاتا ہوں، نوجوان نے پر شوق لہجے میں کہا۔ اگر تم بغداد نہ جائو تو میں تمہارے لئے نیا محل آراستہ کئے دیتا ہوں۔ شاہ اصفہان نے نوجوان کو لالچ دیتے ہوئے کہا۔ الغرض وہ اصفہانی نوجوان برہنہ پا بغداد کی طرف روانہ ہو گیا۔ حضرت شیخ ابو الحسن نوری اپنی خانقاہ میں تشریف فرما تھے۔ اچانک آپ نے اپنے مریدوں اور خدمت گاروں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ خانقاہ سے لے کر میل تک زمین کو صاف وشفاف کردو کیونکہ ہمارا ایک عاشق شوق ملاقات میں اصفہان سے ننگے پائوں چلا آرہا ہے۔ پھر جب وہ شاہی خاندان کا نوجوان حضرت شیخ نوری کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے بڑے والہانہ انداز میں اسے خوش آمدید کہا۔پھر اہل بغداد نے دیکھا کہ اصفہانی نوجوان نے اپنی پرتعیش زندگی کو ٹھوکر مار دی اور حضرت شیخ ابو الحسن نوری کے درکی گدائی پر رضا مند ہوگیا۔
درویشوں کاتو یہ اصول تھا کہ وہ بنجر زمینوں کو بھی نظر انداز نہیں کرتے تھے۔ جس دل میںایمان کی ذرا بھی گنجائش نظر آئی اسے اسلام کا پیغام دے دیا۔… اور اگر کبھی قوت نمو پیدا کرنے کیلئے خون کی ضرورت پیش آئی تو وہ بھی نچوڑ دیا۔ یہ درویشوں کی اعلیٰ ظرفی اور کشادہ دلی ہی تھی جو اہل ہنود کی روحوں میں اتر گئی اور جس نے دلوں کے اندر پوشیدہ صنم خانے بھی ڈھا دئیے۔ حضرت نظام الدین اولیا اور دوسرے درویشوں کی جماعت نے بڑے سے بڑے گناہ گار کو بھی اپنے سینے سے لگایا اور گم کردہ راہ لوگوں کو یقین دلایا کہ اللہ ان کے اندازوں سے کہیں زیادہ مہربان’ رحیم اور بخشنے والا ہے۔ ”آئو بھلائی کی طرف”… اور جب لوگ بھلائی کے راستے پر آجاتے تھے تو درویشوں کا دوسرا پیغام ہوتا تھا۔ ”آئو نماز کی طرف…آئو نماز کی طرف”۔
پھر جس انسان کے نفس میں جتنی استطاعت ہوتی تھی اسی کے مطابق اس کو ذمہ داریاں سونپتے تھے۔
حضرت نظام ا لدین اولیا اور دوسرے درویشوں نے علمائے ظاہر کی ذات پر کبھی نکتہ چینی نہیں کی۔ حالانکہ حضرت محبوب الٰہی سب سے زیادہ اس بات کے اہل تھے کہ علاء الدین خلجی اور غیاث الدین تغلق کے دربار سے فیض یاب ہونے والے علماء پر اعتراض کرتے مگر آپ نے کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کی۔ کسی کے عیوب بیان نہیں کئے اور کسی کے در پردہ حالات جاننے کی جستجو میں نہیں رہے۔ اہل نظر جانتے ہیں کہ یہی سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی افضل ترین سنتیں ہیں۔ہمیں بھی ان پر عمل پیرا ہو کر اس معاشرے کو مثالی بنانا ہوگا۔ بزرگان دین نے بھی ہمیں اسی کی تعلیم دی ہے۔

مزید پڑھیں:  توجہ طلب معاملات