p613 400

افغانستان ‘ بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری

افغانستان میں بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات پر غور کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی )کا ہنگامی اجلاس آج ہو رہا ہے ۔اجلاس بڑے شہروں میں طالبان کے حملوں اور وزیر دفاع کی رہائش گاہ پر حملے کے حوالے سے افغان وزیر خارجہ حنیف اتمر کی بھارتی ہم منصف ایس جے شنکر سے گفتگو کے بعد بلایا گیا ۔افغان وزیر خارجہ نے بھارتی ہم منصب سے گفتگو کے دوران مبینہ طور پر سلامتی کونسل کا خصوصی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔اجلاس کے دوران افغان وزیر خارجہ حنیف اتمر اور افغانستان میں اقوام متحدہ کے معاون مشن کی سربراہ ڈیبرہ لیونس سلامتی کونسل کے اراکین کو صورتحال سے آگاہ کریں گے۔دریں اثناء امریکا کی جانب سے افغان مہاجرین کے لیے پاکستانی سرحدیں کھولنے کا مطالبہ دونوں ممالک کے مابین پہلے سے جاری کشیدگی میں مزید اضافے باعث بن سکتا ہے۔ محکمہ خارجہ کے ایک سینئر عہدیدار نے افغان شہریوں کے لیے نئی امریکی مہاجرین پالیسی کے بارے میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ضروری ہوگا کہ پاکستان اپنی سرحدیں افغان مہاجرین کے لیے کھلی رکھے۔امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان کے علاوہ ترکی سے بھی کہا ہے کہ وہ افغانوں کو امریکا میں دوبارہ آباد ہونے سے قبل 14 ماہ تک ملک میں رہنے کی اجازت دے۔خیال رہے کہ قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے رواں ہفتے واشنگٹن میں ایک بریفنگ میں کہا تھا کہ بے گھر افغانیوں کو پاکستان میں داخل کرنے کے بجائے انہیں اپنے ملک کے اندر رکھنے کے انتظامات کیے جائیں۔انہوں نے کہا تھا کہ انہیں در بدر کیوں کیا جائے؟ ان کے لیے ان کے ملک کے اندر انتظام کریں، پاکستان میں مزید مہاجرین لینے کی صلاحیت نہیں ہے۔ترک حکومت نے بھی افغانوں کو دوبارہ آباد کرنے کے لیے تیسرے ممالک کو استعمال کرنے کے امریکی منصوبے پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس اقدام سے خطے میں ‘مہاجرین کا ایک بڑا بحران پیدا ہوگا۔ترکی کی وزارت خارجہ نے انقرہ میں جاری ایک بیان میں کہا کہ ہم اپنے ملک سے مشورہ کیے بغیر امریکا کے غیر ذمہ دارانہ فیصلے کو قبول نہیں کرتے۔انہوں نے کہا کہ اگر امریکا ان لوگوں کو اپنے ملک لے جانا چاہتا ہے تو ان کو براہ راست طیاروں کے ذریعے اپنے ملک منتقل کرنا ممکن ہے۔ایران اور پاکستان دو ممالک ہیں جو اس آبادکاری کے منصوبے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔امریکا کے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں اس لیے امریکی پالیسی ساز پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں تاکہ وہ اس پروگرام کو نافذ کرنے میں مدد کرے۔تاہم پاکستان ایسا کرنے سے گریزاں دکھائی دیتا ہے1979کے بعد سے پاکستان لاکھوں افغانیوں کی میزبانی کر چکا ہے اور30لاکھ سے زائد مستقل طور پر ملک میں آباد ہیں۔پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ان کی معیشت اتنی مضبوط نہیں ہے کہ وہ زیادہ مہاجرین رکھ سکیں۔ افغانستان کی تازہ صورتحال طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مزید کشیدگی اور جنگ میں شدت کے بعد اب اس امر کی امید کم ہی کی جا سکتی ہے کہ فریقین کسی پرامن تصفیے پر آمادہ ہو سکتے ہیں فریقین میں اب کسی مصالحت اور مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا سیاسی اور پرامن حل نکالنے کے امکانات معدوم سے معدوم تر دکھائی دے رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ اب کابل پر قبضہ برقرار رکھنے اور کابل فتح کرنے کا واحد مشترکہ راستہ طاقت اور صرف طاقت ہی رہ گیا ہے جس کی ذمہ داری طالبان اور کابل حکومت سے کہیں زیادہ امریکہ اور عالمی فوج پر عائد ہوتی ہے ۔جس کا انخلاء تنازعہ کے حل اور فریقین میں مصالحت ‘شراکت اقتدار اور پرامن انتقال اقتدار و انتخابات جیسے معروف طریقے اختیار کئے بغیر اور کوئی فارمولہ وضع کئے بغیر کیا گیا امریکہ نے طالبان سے اپنے انخلاء بارے تو مذاکرات کئے لیکن بین الافغان تنازعہ کے حل کی راہ ہموار نہ کی گئی جس کا انجام شہر شہر قریہ قریہ لڑائی کی صورت میں سامنے ہے ۔ ماضی میں روسی افواج کی واپسی کے بعد طالبان طاقت کے زور پر کابل پر قابض ہوگئے تھے اور قندہار کو اپنا مرکز بنا لیا تھا گزشتہ روز کے ان کے حملے اور حالات کے تناظر میں ایک مرتبہ پھر وہی تاریخ دہراتی دکھائی دے رہی ہے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان لڑائی سے سویلین آبادی بری طرح متاثر ہور ہی ہے اور اسے اب ڈھال کے طور پر استعمال کیا جانے لگا ہے ان حالات میں اولاً عام آبادی پھنس جانے کے باعث نکل نہیں پارہی ہے اور دوم یہ کہ پاکستان ایران اور ترکی افغان مہاجرین کی کسی نئی کھیپ کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیںایسے میں بجائے اس کے کہ بین الاقوامی برادری ان ممالک پر زور دے آج کے اجلاس میں متاثر ہونے والے افغان باشندوں کوافغانستان ہی کے غیر لڑائی والے علاقوں میں منتقل کرنے اور ان کے لئے وہیں پر بودو باش کے عارضی انتظامات پر غور کرنے اور اس حوالے سے کوئی ٹھوس لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے بالخصوص پاکستان کو افغان مہاجرین کی کھلے دل سے میزبانی کاجوصلہ ملا اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان حالات کے تناظر میں پاکستان کے پاس اپنی سرحدیں بند رکھنے اور افغان باشندوں کو پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت نہ دینا ہی واحد راستہ ہے جس کے بعد بین الاقوامی برادری اور افغانستان کو اس حال میں چھوڑ کر جانے والوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ وہاں لڑائی بند کرانے اور متاثرہ آبادی کو سہارا اور امداد فراہم کرنے کی ذمہ داری نبھاکر جائیں۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''