افغانستان اور عالمی برادری کی ذمہ داریاں

افغانستان سے غیر ملکی فوج کے انخلاء کے بعد بینکوں کے باہر لمبی قطاروں اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے اور ان حالات سے گھبرائے لوگوں کا کسی نہ کسی طرح افغانستان سے نکلنے کی مساعی عالمی برادری کے لئے قابل توجہ امور ہیںطالبان سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ان مسائل سے نمٹ سکتے ہیں ممکن ہے ان کو ادراک ہی نہ ہو اس لئے کہ طالبان نے جن حالات میں بقاء کی جنگ لڑی ہے ان کے لئے سخت سے سخت حالات اتنے سخت محسوس نہ ہوں جتنا ایک عام آدمی اس سے متاثر ہو رہا ہے۔خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق طالبان کے لئے بڑھتی ہوئی معاشی مشکلات ایک سب سے بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آرہی ہیں۔ افغانستان جہاں کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی کی یومیہ آمدنی دو ڈالر سے کم ہے، وہاں کرنسی کی گرتی قیمتوں اور بڑھتی ہوئی مہنگائی نے مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے۔یہاں تک کہ نسبتاً کھاتے پیتے گھرانوں کے لئے بھی دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہوگیا ہے، کیونکہ زیادہ تر دفاتر اور دکانیں بند ہیں اور لوگوں کو تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے آنے والے دنوں میں شدید خشک سالی کے خطرے سے خبردار کیاگیا ہے کیونکہ ہزاروں کسان شہروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔خوراک اور بنیادی ضروریات کی درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرنے والے اس ملک کی کرنسی پر، جو اب اربوں ڈالر کی غیر ملکی امداد سے بھی محروم ہے، مسلسل دبائو بڑھ رہا ہے۔ان حالات میںقطر نے طالبان سے کہا ہے کہ وہ ان افغانوں کے محفوظ راستہ یقینی بنائیں جو امریکی انخلا کے بعد بھی ملک چھوڑنا چاہتے ہیںجس کے لئے طالبان شاید ہی تیار ہوں وہ پہلے ہی لوگوں سے ملک نہ چھوڑنے کی اپیل کر چکے ہیںوزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن ال ثانی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم طالبان پر نقل و حرکت کی آزادی پر زور دیتے ہیں اور یہ بھی کہ ملک چھوڑنے یا داخل ہونے کے خواہشمند افراد کے لئے محفوظ راستہ ہونا چاہئے۔معاشی سیاسی اور افغانستان پر طالبان کے تسلط کے تناظر میں مختلف وجوہات کے باعث ا فغانوں کی ایک بڑی تعدادکا ملک چھوڑنے کی سعی میں ہونا فطری امر ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جائیں تو جائیں کہاں؟پیچیدہ سوال یہ ہے کہ امریکی انخلا تو مکمل ہوا مگر افغانستان سے فرار ہو کر پناہ کی تلاش میں نکلنے والے مہاجرین کی ذمہ داری اب کون اٹھائے گا؟ یورپی ممالک کوشش کر رہے ہیں کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک یہ ذمہ داری لینے پر آمادہ ہو جائیںمگرپڑوسی ممالک پہلے ہی افغان مہاجرین کے باعث طویل عرصے سے مشکلات کا شکار ہیںمزید کی تو گنجائش ہی نہیں افغان مہاجرین کا بحران عالمی برادری، خاص طور سے اس کے پڑوسی ممالک کے لئے بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ ایران اور پاکستان کی طرف نگاہیں اٹھ رہی ہیں تاہم یہ دونوں ہی مزید افغان مہاجرین کی ذمہ داری کے متحمل نظر نہیں آ رہے۔پاکستان میں اس وقت ماضی میں آئے ہوئے 1.4ملین رجسٹرڈ افغان مہاجرین رہ رہے ہیں۔ ان کے علاوہ مزید چھ لاکھ غیر اندراج شدہ یا غیر قانونی طور پر آئے ہوئے افغان مہاجر بھی پاکستان میں موجود ہیں۔ اسلام آباد مزید مہاجرین کا بوجھ نہیں اٹھانا چاہتی۔ جرمن وزیر خارجہ کے پاکستان کے دورے کے دوران ان کے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی نے واضح الفاظ میں کہا کہ،پاکستان کے لئے سوال پیسوں کا نہیں، گنجائش کی کمی کا ہے۔دنیا کے بیشتر ممالک کو مسئلے کی سنگینی کا ضرور احساس ہے اور مختلف ملکوں کے وزرائے خارجہ پاکستان کے دورے پر آئے یا رابطے کئے لیکن ا فغان مہاجرین کو یورپی ممالک سمیت دنیا کے بیشتر ممالک اپنے ہاں پناہ دینے کے لئے تیار نظر نہیں آتے پاکستان اور ایران پر مہاجرین کا دبائو بڑھ رہا ہے جبکہ ترکی مہاجرین کی غیر قانونی آمدورفت روکنے کے لئے ایران سے ملنے والی سرحدوں پر مضبوط فصیل کی تعمیر میں مصروف ہے ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ ادوار کے مقابلے میں اس مرتبہ افغان مہاجرین کے حوالے سے عالمی برادری اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں کوتاہی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ جس کے باعث بڑے ا نسانی المیہ رونما ہونے کا خدشہ ہے ان حالات کا واحد حل یہ ہے کہ ا فغانستان میں ایسے حالات پیدا کئے جائیںکہ وہاں سے نقل مکانی کا سلسلہ رک جائے ایسا اس صورت ہی میں ہو گا جب کابل میں بننے والی حکومت کو تسلیم کیا جائے اور بین الاقوامی برادری افغانستان میں استحکام لانے کی ہر ممکن سعی کرے۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے