کوکوبُبّو

گائوں ‘ دیہات’کلی یا پنڈ، گھوٹ چاہے کوئی بھی نا م لے لیں اپنے آبائی علاقہ کی زندگی بظاہر بیزاریت بھری اورشہروں کی نسبت سہولیات سے محروم لگتی ہے مگر حقیقت اس طرح نہیں ہے ، اگرایک دفعہ دیہات کے ماحول میں عادی ہوگئے تومزے ہی مزے ہیں اور رنگوں بھری بھرپور زندگی ہے، شہروںمیں رہنے والے مشینوں کے ساتھ رہتے رہتے اب خود بھی مشین کی طرح زندگی گزار رہے ہیںمصروف رہنا لازمی ہے اگر کوئی مصروف نہیں ہے تو لوگ پوچھ پوچھ کر اتنا تنگ کردیتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جبکہ گائوں میںزندگی میں ضرورت سے زیادہ مصروف رہنے کواچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ۔
میں اگر پہلے کبھی آپ کو نہیں بتا پایا توآج سن لیں کہ میں بنیادی طور پر دیہاتی ہوںجسے پنجابی میں ”پینڈو” اورپشتو میں ”کلی وال ” کہتے ہیں۔مجھے ہمیشہ سے اپنے اس لاحقے سے اور اس سابقے سے کبھی بھی عار محسوس نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی اپنے شہری دوستوں کے اس طرح پکارنے سے ہم نے کوئی تضحیک جانی ، مجھے اپنے پینڈو ہونے پر فخر ہے۔گو کہ آج کل ہم شہر میں رہتے ہیں اور شہریوں کے طور طریقے بھی اپنا لئے ہیں۔اسی طرح شہر والوں کی طرح ہم نے بڑی بڑی فصیلیں بھی بنالی ہیں کہ اُدھر کی آوازیں اِدھر نہ آئیں اور اسی طرح باہر کی آوازیں اندر نہ آسکیں اور اندر ہونے والے طوفانوں کا باہر کے لوگوں کو گما ن نہ ہوسکے۔ بلکہ وہاں تو ہر کوئی ہر وقت ایک دوسرے کے احوال سے واقف رہتا ہے۔بقول شاعر ‘ دکھ بانٹنے کی چیز نہیں پھر بھی دوستو۔ ایک دوسرے کے حال سے واقف رہا کرو۔
شاید اسی مقصد کے لئے دیہاتوںمیں بڑے بڑے حجرے بنائے ہوتے ہیں’ بیٹھکیں ‘ چوپال یا ڈیرے ہوتے ہیں جہاں بیٹھ کر اکثر دیہاتی ایک دوسرے سے اپنے دکھ سکھ کرتے ہیں جب کبھی کچھ لوگوں میں کسی بات پر تنازعہ ہوجائے تب بھی یہ چوپال یاحجرے کے لوگ ان میں انصاف کے ساتھ صلح کروادیتے ہیں۔یہاں کیے جانے والے فیصلے جو دونوں فریقوں کو ماننے پڑتے ہیں بصورت دیگر سارے گائوں والے ان سے قطع تعلق کرلیتے ہیںاس سوشل بائیکاٹ سے ان کا حقہ پانی بند ہوجانے سے معمولات زندگی درھم برھم ہوجاتا ہے ۔بڑھہی ان کے گھر کے کام نہیں کرتا۔موچی اس کے جوتے سینے سے انکار کردیتا ہے۔ نائی اس کی شیوبنانے سے معذرت کرتا ہے تو لوہار اس کی درانتی تیز کرکے نہیں دیتا۔کیوں کہ اگر کسی نے اس کی مدد کی تو پھر یہ ساری پابندیاں اس پر بھی لاگو ہوجائیں گی جس سے اس کی زندگی بھی اجیرن ہوجائے گی ۔
یہی نہیں کہ ان حجرہ ‘ چوپال’ بیٹھک یا ڈیرے کا مقصد لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانا ہے بلکہ دن بھر کے تھکے ہارے لوگ شام کو یہاں بیٹھ کر ایک دوسرے کے احوال سے واقف ہوتے ہیں ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔کسی لڑکی کی شادی ہوتو باراتیوں کو یہیں پر گائوں کے بڑے بوڑھے اور جوان خوش آمدید کہتے ہیں۔یہاں پر ان کی تواضع ہوتی ہے ۔لڑکے کی شادی میں یہ شادی ہال بن جاتا ہے اور سارے گائوں کا کھانا بھی اسی جگہ ہوتا ہے۔سارے امیر غریب اسی جگہ بیٹھ کر شادی کی دعوت اڑاتے ہیں۔اسی طرح غم کی صورت میںبھی یہی جگہ فاتحہ کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔یہاں پر نہ صرف اپنے گائوں کے لوگ فاتحہ کے لئے آتے ہیں بلکہ اڑوس پڑوس کے گائوں کے لوگ بھی جوق در جوق فاتحہ خوانی کے لئے آتے ہیں۔اس طرح کسی کو شادی میں اگر اکیلا نہیں چھوڑا جاتا تو اس کے غم میں بھی تمام گائوں والے برابر کے شریک نظر آتے ہیں۔ گائوں میں خوشی اور غم سب کے سانجھے ہوتے ہیں ایک گھر میں فوتگی ہوجائے تو ہفتوں تک پورے محلے میں بلکہ گائوں میں کوئی بھی ٹی وی تک نہیں لگاتا کہ مبادا غم والے گھروالے ہمارے گھر سے نکلنے والی موسیقی کی آواز سن لیں ۔اب یہ روایات کچھ دیہاتوں میں کم اور کچھ میں تو باکل معدوم ہوکر رہ گئیں ہیں تاہم میں جس زمانہ کی بات کررہاہوں یعنی اپنے بچپن اور جوانی کے دور کی بات کہ تب پوری گائوں میں چند ہی گھروں میں ٹی وی ہوتاتھا مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ ہمارے گائوں میں سب سے پہلے ٹی وی کو کو ببو کے گھر آیا تھا ان کانام تو مجھے یا د نہیں رہا یا یوں کہا جائے کہ مجھے آتا ہی نہیں کیونکہ سارے گائوں والے انہیں اسی نام سے جانتے ہیں۔ ببو ہندکو یا پشتو میں پھپھو کو کہتے ہیں وہ پھپھو تو ہمارے ایک دوست کی تھی لیکن وہ اتنا پیار کرتی تھیں کہ ہم سب دوست انہیں ببو ہی کہتے تھے۔ ہم جب بھی ان کے گھر جاتے وہ بہت ہی پیار اور شفقت سے پیش آتیں ۔ یہ ستر کی دھائی کے آخری سال تھے اور ہر اتوارکو دن کے وقت ٹی وی پر اردو فیچر فلم لگا کرتی تھی یوں ہر اتوار کا دن ہمارے ان کے گھر ہی گزارتا تھا۔ اسی دوران کھانا اور چائے وغیرہ بھی وہیں پر کرلیتے تھے۔ یہ سلسلہ سالوں تک چلتارہا لیکن مجال ہے کہ کبھی کو کوببوکی زبان پر اف تک آیا ہویا ان کے ماتھے پر شکن تک آئی ہو۔ ان کی اسی محبت اور شفقت کی وجہ سے ہمارے گھر اپنا ٹی وی آجانے کے بعد بھی اکثر رات کو آٹھ سے نو بجے کے وقت لگنے والا ڈرامہ بھی ہم انہی کے گھر دیکھتے رہے۔ اب کوکو ببو اس دنیا میں نہیں رہیں اللہ پاک انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''