نیا دور نیا انسان

یکنالوجی بڑی عجیب چیزہے۔اس کے کرشمے تو ہم دیکھ ہی چکے ہیں ۔پوری دنیاکو ٹیکنالوجی قریب لے آئی ہے اور جناب اس قریب آئی ہوئی دنیا کو قریب تر لانے کی سعی کی جارہی ہے۔انٹر نیٹ ایک ایسی دنیا ہے کہ جس کا کوئی انت ہی نہیں۔جوحکم کمپیوٹر چلانے والے کی انگلیاں کی بورڈ کو دیتی ہیں سرچ انجن اس حکم کی بجاآوری کرتا ہے اور نئی نئی دنیاؤں کی سیر پرنکل جاتا ہے۔انٹر نیٹ سچ مچ ایک ایسا جال ہے کہ جس سے لاکھوں کروڑوں آرگنائزیشن اور ادارے وابستہ ہیں انہی کی مساعی سے شب وروز نیٹ کی دنیا چلتی رہتی ہے۔کمپیوٹر جب بناتھاتو اسے تین بڑے کمروں میں رکھا گیا ۔ اب عالم یہ ہے کہ اسے ہماری جیب میں سمانے میں کوئی عار نہیں ہے ۔ خداجانے آنے والے دنوں میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں کیاکیا کرشمے دیکھنے اور سننے کو ملیں گے۔کمپیوٹر ہماری زندگیوں میںمکمل طور سرایت کرچکا ہے ۔ غیرمحسوس طور پر ہم اس عجیب وغریب ڈیوائس کے عادی ہوچکے ہیں۔کمپیوٹر کا کمال یہ ہے کہ اس کی پراسسنگ کی وجہ سے بہت سی باتیں بہت آسان ہوگئی ہیں،ہماری عام زندگی کی مختلف اکٹیویٹیزمیں کمپیوٹر کابہت زیادہ عمل دخل ہوچکا ہے۔سب سے زیادہ تبدیلیاں جو کمپیوٹر کی وجہ سے کسی میدان میں واقع ہوئی ہیں تو وہ ٹیلی کمیونی کیشن کا فیلڈ ہے۔سیل فون کی ابتدا کو ذہن میں رکھا جائے تو یہ ڈیوائس مخصوص لوگوں کی دسترس و استعمال کی ایک چیز تھی۔آج سے صرف بیس بائس برس پہلے سیل فون ایک لگژری تھی لیکن آج موبائل فون کے بغیر زندگی کا تصورہی محال ہے ۔جب کبھی کسی مجبوری کے تحت موبائل نیٹ ورک بند کردیاجائے تو پوراملک کیسی کوفت کا شکار ہوجاتاہے۔اسی ضرورت کو آپ محسوس کرسکتے ہیں کہ ایک ٹیکسی والے کو،ایک ٹریکٹر والے کو،کسی ڈاکٹرکو،کسی فیملی ممبر کو یاکسی دوسری ضرورت کے تحت کسی سے بھی کام ہوآپ اسے موبائل فون پر بلاسکتے ہیں ۔کسی کی خیریت دریافت کرسکتے ہیں۔اسے ہی بنیادی ضرورت کہتے ہیں۔سفر کے وسیلے بھی اسی سمارٹ فون میں شامل ہیں ۔ چھوٹی موٹی چیزیں ایک جگہ سے دوسری جگہ انٹرنیٹ کے توسط سے اٹھائی اور پہنچائی جانے لگی ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جدیدالیکٹرانکس نے ہماری زندگیوں میں نفوذ کرلیا ہے لیکن یہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کاکرشمہ ہی ہے کہ وہ تحقیق اور مارکیٹنگ سے کسی لگژری کو ضرورت کاروپ دے دیتی ہیں۔ان جدید اشیاء نے جہاں ہماری زندگیوں کو آسان کردیا ہے وہیں ایک خطرناک معاملہ یہ ہواہے کہ ہماری حیرتیں ختم ہوگئی ہیں۔بچپن کے دنوں میں جب والد صاحب حج سے واپس آئے تو ساتھ ٹیپ ریکارڈر لے کرآئے ۔جب میرے کزن نے مجھے اس ریکارڈر سے میری ہی آواز ٹیپ کرکے سنائی تو میں شاک ہوگیاتھا۔کئی دنوں تک میں کیسٹ کی ٹیپ کو دیکھتا رہا کہ آخر اس میں کیا جادو ہے کہ اس پر آواز ہو بہو ثبت ہوجاتی ہے۔2018میںبچہ اب کسی حیرت کا شکار نہیں ہوتاچاہے کتنی بڑی ایجاد اس کے سامنے نہ رکھ دی جائے ۔اس نسل کو حیرت کے امکانات سے گزرنا ہی نہیں پڑتاکیوں کہ وہ تو انہی جدید”اے پی پی ایس” کے دور کے پروردہ ہیں۔انسان نے جتنی بھی ایجادیں کی ہیں وہ سب کی سب اس کی اجتماعی فینٹسی کی پیداوار ہیں۔ مشہور امریکی سائنس فکشن ٹی وی سیریز ”سٹار ٹریک” نے 70کی دھائی میں جو جو فینٹسی دکھائیں وہ تمام کی تمام آج ہماری زندگیوں کو حصہ ہیں ۔موبائل فون یا سٹیلائٹ فون کاتصوربھی اسی سٹارٹریک نے دیاتھا، خداجانے ابھی انسان کی کتنی فینٹسی باقی ہیں کہ جو عملی شکل میں ہمارے سامنے آنے والی ہیں ،اور ان کے آنے کے بعد مزید کتنی فینٹسی جنم لیں گی۔ہماری فینٹسی کو ملٹی نیشنل کمپنیاں زندگی عطاکرتی ہیں،اور خود بھی ملین اور بلین کمالیتی ہیں۔مائکروسافٹ اور فیس بک کے مارک زرکربرگ اسی طرح تو بلین کلب کے ممبر بنے ہیں۔سوال یہ کہ دنیا جو تھوڑی بہت نزدیک آئی ہے اس کے اثرات ہم دیکھ رہے ہیں کہ زندگی میں ایک شور اور تلاطم برپا ہوگیاہے۔بہت سی باتیں نہ جاننا بھی ایک نعمت ہے مگر اس گلوبلائزیشن سے میں اور آپ ہر چیز اور ہربات سے باخبر ہوتے جاتے ہیں ،آگہی بذات خود ایک عذاب ہے اور اس عذاب سے آج کا انسان خوب متاثر ہے۔کسی کھیت کھلیاں،کسی جنگل،کسی دورافتادہ گاؤں ،کسی تاریک گلی،کسی صحرااوررات کے پہر کسی قبرستان میں ہونے والی چھوٹی سے چھوٹی بات ،واردات اور حادثے سے ہم لمحوںمیں باخبر ہوجاتے ہیں۔کیا انسان کو سوشل میڈیاکسی ایک لڑی میں پرونا چاہتا ہے ایک ایسی لڑی جو رنگ ونسل ،مذہب و عقیدے سے ماورا ہو۔ہم بھی دیکھتے کہ دنیا کے وسیع پیمانے پر آن لائن آنے کے کیا اثرات آتے ہیں ۔ یہ بات تو طے کہ ہماری قدیم سماجی زندگی اب مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے ۔ وہ حجرے ، بیٹھکیںاور چوپالیں ویسی آباد نہیں رہیں جیسی کبھی ایک بھرپور اندازمیں آباد تھیں ۔ اب یہ حجرے ، بیٹھکیں اور چوپالیں سمارٹ فون میں سماچکی ہیں۔ گویا آج کا انسان ایک جدید سماج میں سانس لینے لگا ہے ۔ لیکن سوالات یہاں بہت سارے جنم لیتے ہیں کہ ہم جس سوشلائزیشن میں جی رہے ہیں اس سے ہمارے رویوں ، مزاجوں ، رسوم ورواج اور زندگی کے دیگر حوالوں میں کیا کیا تبدیلیاں آسکتی ہیں اور کیا وہ تبدیلیاں انسانی سماج کے لیے بہتر ہوں گی یا اس کے نقصانات بھی ہمیں جھیلنا پڑیں گے ۔ ان سوالوں کی بڑی وجہ سوشل میڈیا کا کوئی مستقل ضابطہ اخلاق کا نہ ہونا ہے کہ یہاں جو جس کا دل کرے کہے جو جس کا دل کرے وہ پوسٹ کرے ،ٹیگ کرے ۔جو بھی ہے بہرحال یہ حقیقت ہے کہ آج کا انسان ماضی کے تمام ادوار کے انسانوں سے مختلف زندگی جی رہا ہے ۔ سو یہ بھی طے ہے کہ انسان اپنی زندگی کے لیے بہترین سماج مرتب کرہی لیتا ہے دیکھتے ہیں کہ آئی ٹی کے برپاکردہ اس سوشل ماحول سے نیا انسان کیسے کیسے سمجھوتے کرتا ہے اور کہاں ڈوبتا ہے اور کہاں ابھرتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے