مشرقیات

مہنگائی کے ہاتھوں سب کا پارا ہائی ہے سو سوتاویلیں بھی کام نہیں آرہیں ،ظاہر ہے جب بندے کا پیٹ خالی ہو تو اس کی عقل مائو ف ہی ہوتی ہے اس عقل میں پھر عقل کل کی بات کہاں سماتی ہے تو جناب جتنے بھی عقل کل ہیں حکمرانوں سے وابستہ وہ کچھ عرصے کے لئے ہمیں لیکچر دینے کی بجائے اپنی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دیں۔جن دو خاندانوں کی دولت کی واپسی سے امیدیں پالی گئیں ہیں انہوں نے پھوٹی کوڑی بھی نہیں دینی ،اس سے بہتر یہ ہے کہ اپنے آس پاس بیٹھی موٹی تازی اسامیوں کی جیب پر نظر ڈال لی جائے ان میں بھی کئی خاندان چاہیں تو چینی ہو یا آٹا سستا فراہم کرکے ہمارے ووٹ کا خود کو صحیح حقدار ثابت کر سکتے ہیں آزمائش کے اس وقت میں یہ ہماری چمڑی اتارنے میںہی لگے رہے تو مہنگائی کے ہاتھوں تنگ لوگ بجنگ آمد کے مرحلے کی تیاری کر رہے ہیں۔
دنیا بھر میں مہنگائی کا فلسفہ بھی نہیں بک رہا ،خزانچی سے زیادہ بہتر کون جانتا ہے کہ مہنگائی کی ایک بڑی وجہ ڈالرکی قدر ماسی مصیبتے کی خواہشات پر طے کرنا ہے،اس کے بعد جو بھی کھانے پینے کی چیز باہر سے منگوائی گئی اس کی ڈالروں میںادائیگی کے بعد ہمیں ڈالر کی قیمت چکانی پڑرہی ہے ،آسان سے بات ہے کہ ایک ڈالر کا آئل استعمال کرتے ہوئے ہم پہلے اگر ڈالرکی قیمت کے مطابق اس کے لئے ایک سو پچاس روپے خرچ کررہے تھے تو اب ایک سوستر روپے دینے پڑ رہے ہیں۔
دوسری بڑی وجہ تیل ہے،اسے درآمد کیا جاتا ہے جس قیمت پر ،وطن عزیز میں ٹیکسوںکی بھرمار کے بعد یہ ہمیں اصل قیمت سے کہیںمہنگا پڑتاہے اور نتیجے میں ہر چیز مہنگی ہونے لگتی ہے،عالمی منڈی میںپٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھیںیا کم ہوں اس کا فائدہ دونوںصورتوںمیں سرکار اپنی جیب میں ڈالتی ہے۔
تیسری چیز سیاست ہے ،ہماری سیاسی قیادت نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ عوام گئے بھاڑمیں ،اس نے صرف اپنا الو سیدھا کرنا ہے،ایک دوسرے کو ہزیمت سے دوچار کرنے کے لئے یہ لوگ عوام کی بہتری کے لئے مل کر کام کرنے کو اپنی سیاسی موت سمجھتے ہیں ورنہ کون سی مشکل ہے ان جماعتوںکے مل بیٹھ کر مہنگائی کا حل نکالنے میں۔اپنی ضد،اناپرستی اور سیاست کے لئے ملک وقوم کو دائو پر لگایا جارہے ایسے میں خدانخواستہ معیشت بالکل ہی تبا ہ حال ہو گئی تو”ہم تو ڈوبے ہیںصنم تم کو بھی لے ڈوبیںگے”والی صورت حال کا سب کو سامنا ہوگا۔

مزید پڑھیں:  پابندیوں سے غیرمتعلقہ ملازمین کی مشکلات