جامعات کی خودمختاری وقت کا تقاضا

جامعات کا نظم و نسق کئی لوگوں کے خیال کے برعکس کئی زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے، ان میں وہ حکومتی لوگ بھی شامل ہیں جن کا یونیورسٹی کے امور میں عمل دخل ہوتا ہے۔ درحقیقت جب تک کسی نے عملاً ایک یونیورسٹی میں اعلیٰ انتظامی عہدے پر کام نہ کیا ہو ا س کیلئے یونیورسٹی کے اس نظام کو پوری طرح سمجھنا مشکل ہے جو بہت سے دوسرے سرکاری اداروں سے مختلف ہوتا ہے۔ ایک یونیورسٹی کے کئی سٹیک ہولڈرز ہوتے ہیں، جن میں سب کے سب تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ جیسا کہ تدریسی عملہ، سکالرز ،محققین، منتظمین، سنڈیکیٹ، سینیٹ، اکیڈمک کونسلز، طلبائ، سابق طلبائ، والدین وغیرہ ہیں۔ اسی طرح ملک کے اندر اور دنیا بھر میں دیگر ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو تعاون اور مسابقت کا احساس دلاتے رہتے ہیں، جس سے ایک جامعات کی کارکردگی بہتر ہو تی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب ہماری یونیورسٹیوں کی بہترین کارکردگی میں کیا کمی باقی رہ گئی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا بھر کی یونیورسٹیاں خود مختار ادارے ہیں جو اپنے طور پر تعلیمی اور فعال پالیسیاں اور طریقہ کار وضع کرتے ہیں لیکن پاکستان میں ایسا نہیں۔ یہاں یونیورسٹیوں کے نظم و نسق میں حکومت کا بہت زیادہ عمل دخل ہے۔ پاکستان میں جامعات، چاہے سرکاری ہوں یا نجی، ایک ایکٹ کے ذریعے قائم کی جاتی ہیں۔ اس ضمن میں قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں بشمول ان کی قائمہ کمیٹیوں سے جامعات کے بلوں کی منظوری لی جاتی ہے۔ اسی طرح صوبائی حکومت کے زیر انتظام جامعات کی منظوری صوبائی اسمبلیاں دیتی ہیں ۔ نوآبادیاتی ممالک کے علاوہ مہذب دنیا میں کہیں اور ایسا نہیں ہوتا؟ امریکہ کے پاس دنیا کا سب سے زیادہ جامع اور بہترین اعلیٰ تعلیم نظام موجود ہے۔ آج امریکہ میں اعلیٰ تعلیم کے سات ہزار سے زیادہ ادارے موجود ہیں، جن میں بڑے سرکاری اور نجی تحقیقی اداروں سے لے کر چھوٹے مذہبی کالجز تک سب کچھ مکمل طور پر ویب پر موجود ہے۔ امریکہ کا اعلیٰ تعلیم کا شعبہ ہر سال10 لاکھ سے زیادہ ایسوسی ایٹ ڈگریاں، تقریباً20 لاکھ بیچلر ڈگریاں،10 لاکھ سے زیادہ ماسٹر ڈگریاں اوردو لاکھ سے زیادہ ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں جاری کرتا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں ڈگریوں کے اجراء کے باوجود امریکہ کی جامعات کا نظم و نسق حکومتوں، وفاقی اور ریاستوں کے ذریعہ نہیں چلایا جاتا وہاں جامعات مکمل طور پر خود مختار ہیں اور اپنے بورڈز اور انتظامیہ کے زیر انتظام ہیں، جو فیکلٹی ممبران پر مشتمل ہیں۔ امریکہ میں وفاقی اور ریاستی حکومتیں یا کانگریس یونیورسٹی کے چارٹر کو منظور نہیں کرتیں جیسا کہ پاکستان میں ہوتا ہے ۔ امریکی جامعات کو صرف متعلقہ محکمہ سے رجسٹریشن کروانے کی ضرورت ہوتی ہے جو ایک معمولی نوعیت کا اقدام ہے۔ وہاں فیڈرل ہائر ایجوکیشن ایکٹ 1965 ء اس بارے میں معیارات مقرر نہیں کرتا کہ جامعات کو کس طرح تعلیم، تحقیق یا کمیونٹی کو خدمات فراہم کرنی چاہیے؟ جیسا کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن ( ایچ ای سی) کرتا ہے۔ فیڈرل ہائر ایجوکیشن ایکٹ کا صرف یہ تقاضا ہے کہ ایک ادارہ حکومتی گرانٹس کا اہل ہونے کے لئے تسلیم شدہ ہونا چاہیے۔ ایکریڈیشن (توثیق ) ہی معیاری تعلیم، جدید تحقیق اور کمیونٹی کی خدمت کی کلید ہے۔ چنانچہ امریکہ میں یہ ایک غیر سرکاری نظام ہے جس کے تحت مڈل سٹیٹس کمیشن آن ہائر ایجوکیشن ( ایم ایس سی ایچ ای، سدرن ایسوسی ایشن آف کالجز اینڈ سکولز، ایکریڈیٹیشن بورڈ فار انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، ایسوسی ایشن ٹو ایڈوانس کالجیٹ سکولز آف بزنس جیسے غیر منافع بخش اور خود مختار نجی ادارے اعلیٰ تعلیم کے اداروں کے ساتھ ملکر کام کرتے ہیں تاکہ بہتر اقدامات اٹھائے جا سکے۔ اعلیٰ تعلیمی ادارہ ایک خود تشخیصی رہنمائی فراہم کرتا ہے جسے ایکریڈیٹر پھر کسی ادارے کی کامیابیوں اور مسائل کو جانچنے کے لئے لائحہ عمل کے طور پر استعمال کرتا ہے۔تصدیقی ادارے، جو خود مختار اور انتہائی پیشہ وارانہ ہوتے ہیں، تعلیمی پروگراموں اور اعلیٰ تعلیم کے اداروں کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں۔ پاکستان میں اگرچہ اعلیٰ تعلیم کے اداروں اور تعلیمی پروگراموں کا ایچ ای سی اور تصدیقی اداروں دونوں کے ذریعے جائزہ لیا جاتا ہے، لیکن پھر بھی ان کے معیار پر سوال اٹھتے ہیں جس کی وجہ ہے کہ تصدیقی باڈیز خود سیاسی ہوتی ہیں اور حکومت کی طرف سے قائم کی جاتی ہیں۔ امریکہ میں، تمام یونیورسٹیاں، خواہ سرکاری ہوں یا نجی، وفاقی اور ریاستی حکومتوں دونوں سے فنڈز حاصل کرنے کی اہل ہیں۔وہاں کوئی ایچ ای سی نہیں جبکہ وفاقی ادارے ہیں جو بنیادی تحقیق کیلئے فنڈ دیتے ہیں اور فنڈنگ کا بڑا حصہ براہ راست محکموں سے آتا ہے۔ پاکستان میں صدر، وزرائے اعلیٰ، گورنرز، اور وزراء (وفاقی اور صوبائی)یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تقرری کا فیصلہ کرتے ہیں۔اس عمل میں بعض اوقات کئی اہل امیدوار نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتیں ،وزرائ، سیکرٹریز اور وفاقی اور صوبائی اعلیٰ تعلیمی کمیشنز کے ذریعے جامعات کے نظم ونسق میں مداخلت کرتی ہیں۔ ایچ ای سی اپنے معیار اور معیار پر کنٹرول کے ذریعے اور فنڈنگ کا واحد ذریعہ ہونے کی وجہ سے بعض اوقات ایک ایسے مافیا کی طرح کام کرتا ہے جو یونیورسٹیوں پر اپنا ایجنڈا مسلط کرنا چاہتا ہو۔ چنانچہ پاکستان کے اعلیٰ تعلیم کے شعبے کو درپیش بنیادی چیلنج جامعات کی اس خود مختاری کی بحالی ہے جسے فیڈرل یونیورسٹیز آرڈیننس کے ذریعے چھین لیاگیا تھا۔ حکومت کوچاہیے کہ وہ اس آرڈیننس میں ترمیم لائے تاکہ جامعات کو مکمل طور پر خود مختار بنایا جا سکے۔ اسی طرح جامعات کے چارٹر کی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں سے منظوری کاسلسلہ بھی ختم ہونا چاہیے۔ وائس چانسلرزاور دیگر سینئر منتظمین کا تقرر جامعات کے ذریعے ہی میرٹ پر مبنی اور شفاف طریقہ کار کے ذریعے ہونا چاہیے۔جامعات کو تصدیقی اداروں اور ایچ ای سی کے معیارات کے مطابق اپنی پالیسیاں مرتب کرنے میں آزادی حاصل ہونا چاہیے۔ اسی طرح ایچ ای سی کو چھوٹی جامعات کو استعداد کار بڑھانے کے لئے تعاون فراہم کرنا چاہیے۔ایسے اقدامات کے ذریعے ہی ہم اپنے تعلیمی نظام میں بہتری لاسکیں گے۔
(بشکریہ،دی نیوز، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  منرل ڈیویلپمنٹ کمپنی کا قیام