سمت کا تعین ضروری

جن معاشروں میں آمدن اور خرچ کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے وہ معاشرے قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں، اس کی جیتی جاگتی مثال پاکستان ہے، آزادی سے لیکر آج تک آمدن کو نظر انداز کر کے بیرونی قرض حاصل کئے جاتے رہے ہیں، بلاتفریق ہر حکومت اس عزم کے ساتھ ملک کے قرض بڑھاتی رہی ہے کہ وہ ملک کا قرضہ اتار رہی ہے، تاہم جب دور حکومت اختتام کو پہنچتا تو معلوم ہوتا کہ ماضی کی حکومت کے مقابلے میں ملک کے قرضے بڑھ گئے ہیں۔ عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی کہنا شروع کر دیا تھا کہ ہماری ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بیرونی قرضے ہیں۔ ان کے ویژن سے لگتا تھا کہ وہ حکومت میں آتے ہی مثالی معاشی پالیسی تشکیل دیں گے جس کے نتیجے میں ہمارے بیرونی قرضے بتدریج نیچے آنا شروع ہو جائیں گے، اسی بنا پر وہ کروڑوں لوگوں کی امید بن گئے، مگر عوام کی یہ امیدیں ثمر آور ثابت نہ ہو سکیں اور بدقسمتی سے تحریک انصاف کے دور حکومت میں بیرونی قرضے پہلے کی نسبت خطرناک حد تک بڑھ گئے ہیں، جس کی وجہ سے ہماری آمدن کا زیادہ تر حصہ قرض چکانے میں خرچ ہو جاتا ہے، اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں اپنی آمدن کا تقریباً 85 فیصد قرض ادا کرنے میں لگاتا ہے، بھارت51 فیصد اور بنگلہ دیش اپنی آمدن کا 20 فیصد قرض ادا کرنے میں لگاتے ہیں۔ مذکورہ تینوں ممالک کی معیشت کا اجمالی تجزیہ کیا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ پاکستان کے اصل مسائل بیرونی قرضے ہیں، اور بیرونی قرضے ادا کرنے کے بعد ہمارے پاس جو بچتا ہے وہ مملکت چلانے کیلئے ناکافی ہوتا ہے، مہنگائی کی اصل وجہ بھی بیرونی قرضے ہی ہیں کہ حکومت نہ چاہتے ہوئے بھی مہنگائی کرکے اہداف حاصل کرنا چاہتی ہے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ سیاستدانوں کی لڑائی میں آج تک قابل عمل معاشی پالیسی کیوں نہ بن سکی، ہر دور میں مسائل کا وقتی حل نکالنے کی کوشش کی گئی۔ تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو کہا گیا کہ ماضی کے حکمرانوں نے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے سو مشکل حالات آئیں گے، عوام ذہنی پر طور پر مہنگائی اور مشکل حالات کیلئے تیار تھے محض اس لئے کہ مستقل حل کیلئے وہ چند سال مشکل میں گزار لیں گے لیکن کم از کم ہماری مشکلات تو ختم ہو جائیں گی اور آنے والی نسلوں کیلئے آسانی ہو گی، جب عوام ذہنی طور پر تیار ہو گئے تو آگے حکومت کا کام تھا کہ وہ اپنا وعدہ پورا کرتی اور ایسی معاشی پالیسی طے کرتی جس سے ہمارے دیرینہ مسائل ختم ہوتے، حکومت نے مگر اس ضمن میں ٹال مٹول سے کام لیا، پہلے کہا کہ ایک سال لگے گا پھر کورونا نے دنیا کو آن لیا تو حکومت بھی بے بس ہو گئی اور ہم مزید پیچھے چلے گئے۔ اب تحریک انصاف کورونا وائرس کو جواز بنا کر خود کو بری الذمہ قرار دیتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کسی قدر جذباتی ہیں اور چاہتے ہیں کہ مسائل فوری سے پہلے حل ہو جائیں، ایسا ہونا ممکن نہیں ہے، عوام کی طرح سیاسی جماعتوں کا بھی مجموعی مزاج بن چکا ہے کہ وہ مسائل کو فوری حل کرنے کا وعدہ کر کے اقتدار میں آتی ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد کہنا شروع کر دیتی ہیں کہ برسوں کی خرابی ٹھیک کرنے کیلئے وقت لگے گا۔ اس ضمن میں اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ آزادی کے بعد سے لے کر ابھی تک ہماری سمت کا تعین ہی نہیں ہو سکا ہے، سو ہم منزل سے دور ہیں، بلکہ سرے سے منزل کھو چکے ہیں، اس مبینہ ناکامی کی تمام تر ذمہ داری اہل سیاست پر عائد ہوتی ہے۔ 2017-18ء میں بیرونی قرض اور ادائیگیاں 95 ارب ڈالرز تھی جو30 ستمبر
2021ء کو بڑھ کر127 ارب ڈالرز ہوگئے۔ تحریک انصاف کے گزشتہ تین برس اور تین ماہ کی مدت میں بیرونی قرض اور ادائیگیاں32 ارب ڈالرز تک بڑھے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت ڈیڑھ سال بعد جب اپنی آئینی مدت پوری کرے گی تو بیرونی قرضوں کے حجم میں مزید اضافہ ہو چکا ہوگا۔ تحریک انصاف کی حکومت اگر ایک کام کر دے تو آنے والے نسل اسے دعائیں دے گی، سیاست سے بالا ہو کر پورا سچ قوم کے سامنے پیش کر دیا جائے اور بتا دیا جائے کہ ہم سمیت تمام حکومتوں نے مسائل سے نکلنے کیلئے آج تک سیاسی راستہ اپنایا ہے جبکہ ہمیں من حیث القوم لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے، جس طرح چین کو مشکلات کا سامنا تھا تو ان کے قائد ماؤزے تنگ نے پوری قوم کو تیار کیا تھا کہ وہ مشکل میں قیادت کا ساتھ دے، اسی طرح ہماری قیادت کو بھی چاہئے کہ وہ بحرانوں سے نمٹنے کیلئے اپنی جد و جہد میں قوم کو شامل کرے، ہماری حالت اس وقت یہ ہے کہ اگر کوئی حکومت اپنے اقدامات سے ایک قدم آگے بڑھاتی ہے تو انتخابات میں کامیاب ہو کر آنے والی دوسری حکومت کی پالیسیاں مختلف ہوتی ہیں جس کی بنا پر ہم آگے بڑھنے کی بجائے دو قدم پیچھے چلے جاتے ہیں۔ سیاسی نظام میں ہر پارٹی اپنے مفادات کا اسیر ہو کر سوچتی ہے، کیونکہ سیاست میں حکومت کو ناکام کرنا اہم سمجھا جاتا ہے، یہی کچھ ہمارے ہاں اپوزیشن جماعتیں کرتی آئی ہیں اور موجودہ دور میں بھی کر رہی ہیں۔ سیاسی جماعتیں عوام میں اپنا سیاسی ایجنڈا اس مہارت کے ساتھ پھیلاتی ہیں کہ عوام اس سے بالا تر ہو کر سوچنے سے قاصر ہوتے ہیں، کیونکہ سیاسی جماعتیں بخوبی جانتی ہیں کہ قوم میں اجتماعی شعور کا فقدان ہے، ہمارے ہاں ہر حکومت کی ناکامی کے پس پردہ یہی حقائق ہیں کہ ہم نے کبھی بطور قوم فیصلے نہیں کئے ہیں، قوم کے اندر اجتماعی شعور ہی ہمارے مسائل کا مستقل حل ہے، جب قوم کے اندر اجتماعی شعور پیدا ہو جائے تو پھر سیاستدان بھی قوم کو مقروض بنانے والے فیصلے نہیں کر سکیں گے۔

مزید پڑھیں:  ''ہمارے ''بھی ہیں مہر باں کیسے کیسے