کورونا کی نئی قسم ”اومی کرون”

جنوبی افریقہ سے پھیلنے والی کورونا وائرس کی نئی قسم اب لوگوں کے ذریعے تیزی سے پوری دنیا میں پھیل رہی ہے ، طبی ماہرین نے کورونا وائرس کی افریقی قسم کو ”اومی کرون” کا نام دیا ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کورونا کی نئی قسم سے بچائو کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ ایسوسی ایشن نے تجویز کیا ہے کہ ایئرپورٹ پورٹ پر مسافروں کی سکرینگ کے عمل کو مؤثر بنایا جائے اور ائیرپورٹ پر کورونا کے رپیڈ اینٹیجن ٹیسٹ کئے جائیں۔
عالمی ادارہ صحت نے متبنہ کیا ہے کہ اومی کرون کے حقیقی خطرات ابھی تک سمجھ نہیں آسکے ہیں، لیکن ابتدائی شواہد سے معلوم ہوا ہے کہ وائرس کے تیزی سے پھیلنے والی اقسام کے مقابلے میں یہ نئی قسم زیادہ تیزی سے دوبارہ مرض میں مبتلا کر سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ کورونا سے متاثر ہونے کے بعد صحت یاب ہو چکے ہیں وہ بھی اومی کرون کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ کورونا ویکسین اس نئی قسم کے خلاف مؤثر ہو گی یا نہیں؟ اس بارے میں ویکسین بنانے والی کمپنیاں کہہ رہی ہیں کہ اس حوالے سے پتہ چلانے کیلئے کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔ کورونا وائرس کی نئی قسم اومی کرون کے سامنے آنے کے بعد متعدد ممالک نے سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں، دنیا خوف میں اس لئے مبتلا ہے کیونکہ کورونا وائرس کی وجہ سے پچاس لاکھ سے زائد افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ ان حقائق کے پیش نظر پاکستان کو اقدامات اٹھانے چاہئے، حکومت نے اگرچہ افریقی ممالک اور ہانگ کانگ پر سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں لیکن اس میں لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ متعلقہ ممالک میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو پانچ دسمبر تک سفر کی اجازت ہو گی۔ حکومت نے پاکستانی مسافروں کو سفری اجازت اپنے شہری ہونے کے ناطے دی ہے مگر اس امر کا خیال رکھا جانا چاہئے کہ افریقی ممالک سے آنے والے مسافروں کو صحت یاب ہونے کے بعد ہی گھر جانے کی اجازت دی جائے، اسی طرح جن مسافروں کے بارے میں معلوم ہو جائے کہ وہ کورونا کی نئی قسم سے متاثر ہیں انہیں سفر کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ دو سال پہلے بھی ہم نے سفری پابندیاں نرم کی تھیں جس کی وجہ سے پاکستان میں کورونا وائرس پھیل گیا تھا، اب دوبارہ اس غلطی کی گنجائش نہیں ہے ۔
افغان وزارت صحت کے ساتھ تعاون کی ضرورت
افغان وزارت صحت نے ہسپتالوں کو فعال بنانے کیلئے پاکستان سے مدد کی درخواست کی ہے، اس مقصد کیلئے افغان وزیر صحت ڈاکٹر قلندر عباد وفد کے ہمراہ پاکستان پہنچے ہیں۔ افغان وزارت صحت نے ہنگامی بنیادوں پر جان بچانے والی ادویات کی فراہمی اور مریضوں کو افغان بارڈر پر سہولیات سمیت درخواست کی ہے کہ پاکستان افغان ٹیکنشز، نرسوں اور پیرا میڈیکل سٹاف کو تربیت فراہم کرے، پاکستانی حکومت کا افغان حکومت کے ساتھ صحت کے شعبے میں اگرچہ کوئی معاہدہ نہیں طے پایا ہے تاہم پاکستانی دواساز کمپنیوں نے افغانستان کو دس کروڑ روپے کی ادویات عطیہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ خوش آئند ہے کیونکہ افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت کو مختلف شعبہ جات میں مشکلات کا سامنا ہے، ہسپتالوں کا نظام غیر فعال ہونے کی بنا پر ہزاروں کی تعداد میں مریض علاج کیلئے پاکستان کا رخ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، پشاور کے ہسپتالوں میں بالخصوص افغان شہریوں کی بڑی تعداد روزانہ کی بنیاد پر پہنچ رہی ہے۔پاکستان اپنے تیئں افغان شہریوں کو ایک عرصے سے علاج کی سہولیات فراہم کر رہا ہے مگر موجودہ دور کی ضروریات ذرا مختلف ہیں، امریکہ افغانستان سے جا چکا ہے، افغانستان کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے، شعبہ صحت جس قدر توجہ کا متقاضی ہے اس قدر بجٹ کی بھی ضرورت ہوتی ہے، سو ڈاکٹرز کی موجودگی ہی کافی نہیں ہے بلکہ مریضوں کیلئے ادویات اور آلات جراحی کی اشد ضرورت ہوتی ہے، اس حوالے سے پاکستان کی کاوشیں قابل تحسین ہیں، مگر دنیا کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ افغان شہریوں کو علاج کی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔
کورونا فنڈز میں بے ضابطگیاں
پاکستان نے عالمی مالیاتی ادارے(آئی ایم ایف)کی ایماء پر کووڈ 19 پر ہونے والے اخراجات کی رپورٹ جاری کر دی ہے، کیونکہ آئی ایم ایف نے مالی پروگرام کی قسط حاصل کرنے کیلئے پانچ شرائط عائد کی تھیں جن میں سے ایک کووڈ 19 کے اخراجات کی آڈٹ رپورٹ بھی تھی، آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں چالیس ارب روپے کی بے ضابطگیوں کا سامنے آنا معمولی بات نہیں ہے، حیران کن امر یہ ہے کہ اس قدر بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں ایسے وقت میں ہوتی رہی ہیں جب ہمیں کورونا جیسی مہلک وبا کا سامنا تھا، عوام بیماری اور بھوک سے مر رہے تھے مگر کچھ لوگ اثاثے بنانے میں مصروف تھے، ایسے لوگوں کا تعین ہونا بہت ضروری ہے تاکہ قوم کو معلوم ہو سکے کہ کورونا فنڈز کے نام پر کرپشن کرنے والے کون تھے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ نامساعد حالات میں ہم نے آئی ایم ایف سے رجوع کیا آئی ایم ایف کی کڑی شرائط اور ٹیکسز و مہنگائی میں بے پناہ اضافے کے بعد ہم مالی پیکیج حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، اس لئے آئی ایم ایف کے قرضے عوام کو بہت مہنگے پڑے ہیں لیکن چونکہ ہمارے پاس کوئی دوسرا آپشن بھی نہیں تھا، اس لئے حکومت نے کڑی شرائط پر مالی پیکیج حاصل کیا، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان فنڈز کو ہم شفاف طریقے سے خرچ کرتے مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا اور بے ضابطگیوں کا انکشاف ہو چکا ہے، آڈیٹر جنرل کی رپورٹ آ چکی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داروں کا تعین کرکے انہیں کٹہرے میں لا کر قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ آئندہ اجتماعی فنڈز میں کرپشن کی کسی کو جرأت نہ ہو۔

مزید پڑھیں:  چاند دیکھنے سے چاند پر جانے تک