مشرقیات


مجال ہے کہ اس قوم کے جذبات سے کھلواڑ کرنے والے باز آجائیں۔سری لنکا کے شہری کا ابھی جسد خاکی تابوت ہی میں پڑا تھا جب جذباتی ابال کی قصیدہ خوانی شروع کرکے ایک اہم شخصیت نے جلی سڑی نعش پر مٹی پائو کا فلسفہ بگھار دیا ،اب ان کے فلسفے پر سوشل میڈیا پر جو روشنی ڈالی جا رہی ہے اسے بیان کرنے کی تاب ہم میں نہیں۔تاہم وہ اپنی ذات میں تنہا انجمن نہیں ہیں ایسا فلسفہ آج کل سب لیڈر حضرات کی زبان پر ہوگا وگرنہ ووٹ گئے ہاتھ سے اور بہرحال کوئی سیاسی رہنما اپنی قبر اپنے ہاتھ سے نہیں کھودتا ہمیشہ دوسرے کی قبر کھودنے کی فکر میں رہتا ہے۔اپنے مولانا صاحب تو پہلے دن ہی جو موقف دے گئے تھے وہ اصولی اسی لئے قرار پاتا ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں انہیں اپنی پوزیشن کی فکر پڑی ہوئی ہے۔ایسے ہی دیگر جماعتوں کے قائدین بھی اس حوالے سے خاموشی ہی میں بھلا سمجھ رہے ہیں۔اب آئیں دیکھتے ہیں کہ جذبات کی سان پر چڑھانے والے ہمیں کس طرف لے جارہے ہیں اور کون کون سیالکوٹ جیسے واقعات کا منظر سجانے میں ملوث ہے۔
ایک معمولی سا گلی محلے کا لیڈر بھی اپنے مخالفین کو سنانے پر اتر آئے تو مارنے مرنے والی صورتحال بن جاتی ہے۔سیاست میں اپنے کارناموں کی بجائے چرب زبانی اور دوسروں کی تحقیر اور مذمت کا ہتھکنڈہ عدم برداشت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔جھوٹے الزامات لگا کر مخالفین کوبدنام اور خود کو فرشتہ ثابت کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ وہ کسی کی عزت ہی نہیں اچھال رہے اسے مال وجان کے خوف سے بھی دوچار کر رہے ہیں،ہمارے صوبے میں بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں اور مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدوار حضرات اپنی مخالف جماعتوں کی لیڈر شپ کے لئے کارنر میٹنگز میں جو زبان استعمال کر رہی ہے یہ انہیں ان کی سیا سی قیادت نے ہی پڑھائی ہے۔یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ ہمارے ہاں کامیابی کے لئے دشنام طرازی،جھوٹ ،افواہیںاور دوسروںکی ذات پر رکیک حملے ضروری ہوتے ہیں ،لوگوںکو جذبات کی سان پر چڑھانے والی قیادت ہی بعد میں کسی قومی سانحے کو بھی معمولی سمجھتی ہی نہیں سمجھاتی بھی ہے۔سیالکوٹ واقعے کے تناظر میں اسی سوچ نے ہمارے مستقبل کو بھی دائو پر لگا رکھا ہے۔اپنی آنے والی نسلوںکی تربیت بہرحال اب پرانی روش پر چل کر کی گئی تو تباہی ہی تباہی ہے۔کسی ایک جماعت کو نہیں تمام جماعتوں کو اب مل بیٹھ کر اخلاقیات پر مبنی اپنے رویوںکا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  موبائل سمز بندش ۔ ایک اور رخ