شہید جمہوریت بے نظیر بھٹو

شہید جمہوریت بے نظیر بھٹو

بے نظیر بھٹو 27دسمبر 2007ء کی ڈھلتی سہ پہر میں لیاقت باغ راولپنڈی کے باہر ماردی گئیں، زندگی تمام ہوئی۔ جدوجہد کا باب بند ہوا۔ جلاوطنی ختم کرکے وہ شہادت سے 70دن قبل جب کراچی ایئرپورٹ پر اتریں تو انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ان کے استقبال کیلئے موجود تھا۔ (بلاشبہ اپریل 1986ء میں جب وہ بیرون ملک سے لاہور آئیں تو ایک تاریخی استقبالیہ جلوس ان کا منتظر تھا۔) اکتوبر 2007ء میں کراچی میں استقبال کرنے والا ہجوم لاہور کے مقابلہ میں کہیں زیادہ تھا۔ اقتدار پر قابض فوجی آمر جنرل پرویز مشرف اور ان کے ترجمان آسمان سر پر اٹھائے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہا گیا کہ حکومت ان کی سکیورٹی کی ذمہ دار ہرگز نہیں۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا بڑا حصہ ان کی وطن واپسی کو پرویز مشرف سے ڈیل کا نتیجہ قرار دے رہا تھا۔ تاثر یہ دیا جارہا تھا کہ وہ ایک سمجھوتے کے تحت آئی ہیں۔ الیکشن ہوں گے اگلی حکومت پی پی پی اور جنرل مشرف کی تخلیق کردہ (ق) لیگ کی مشترکہ ہوگی۔ بی بی سمجھوتے کے مطابق پرویز مشرف کو دوبارہ صدر منتخب کرائیں گی۔ ضیاء الحق کی جگہ آرمی چیف بننے والے جنرل مرزا اسلم بیگ نے قائم مقام صدر غلام اسحق خان اور سینئر وزیر الٰہی بخش سومرو کوبتادیا تھا کہ فوج مارشل لاء نہیں لگارہی (تب کچھ حلقوں نے تاثر دیا کہ مہاجر جنرل مرزا اسلم بیگ کا ساتھ نہیں دیا غیرمہاجر جرنیلوں نے ، لیکن یہ بات بعد میں اْس وقت غلط ثابت ہوئی جب ایک دوسرے مہاجر آرمی چیف پرویز مشرف نے پنجابی وزیراعظم نوازشریف کا تختہ الٹاکر اقتدار پر قبضہ کیا تو سارے غیرمہاجر جرنیل ان کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے)انتخابات ہوئے پیپلزپارٹی اکثریت پارٹی بن کر قومی اسمبلی میں پہنچی لیکن قائم مقام صدر غلام اسحق خان نے الٰہی بخش سومرو اور دوسرے وزراء کے مشورے کے باوجود جنرل حمید گل کی بات مانی اور اسلامی جمہوریت اتحاد کے سربراہ میاں نوازشریف کو موقع دیا کہ وہ بیوروکریسی اور پولیس کے تعاون سے آزاد حیثیت میں جیتنے والے ارکان اسمبلی کا ہانکا کرکے انہیں اپنی ”سائیکل” پر سوار کرلیں۔ انہی دنوں جنرل حمید گل یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ ”ہم نے آئی جے آئی کے نام سے اتحاد اس لئے بنوایا تھا کہ فوج کو خطرہ تھا کہ اگر پیپلزپارٹی اقتدار میں آجاتی ہے تو وہ فوج سے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا انتقام لے گی”۔بے نظیر بھٹو دوسری بار 1993ء میں اقتدار میں آئیں ان کے اس دور میں انکے بھائی مرتضیٰ بھٹو کراچی میں قتل ہوئے۔ آج تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ وہ کیسی کراس فائرنگ تھی جس کی ایک بھی گولی مرتضیٰ بھٹو کو نہیں لگی اور وہ ایک اجنبی شارپ شوٹر کی گولی سے مارے گئے۔ بینظیر بھٹو کا یہ اقتدار ان کے منہ بولے بھائی فاروق لغاری نے ویسے ہی الزامات پر ختم کیا جیسے 1990ء میں صدر اسحق نے لگائے تھے۔
جنرل ضیاء الحق اور ان کے حواریوں موالیوں اور محبان نے تو اپنے دور میں جو سلوک بے نظیر اور ان کی والدہ کے ساتھ کیا سو کیا، ان کے سیاسی جانشین میاں نوازشریف اور اسلامی جمہوری اتحاد نے تو ساری حدیں پھلانگ لیں۔ گھٹیا جعلی تصاویر سے غلیظ تقاریر تک سب کچھ ہوا۔ پھر قومی اسمبلی میں جو ہوا وہ الگ المیہ داستان ہے۔ میاں نوازشریف کے دوسرے دور میں بینظیر بھٹو ملک چھوڑ کر چلی گئیں۔ ان کی واپسی اکتوبر 2007ء میں ہوئی اور آمد کے 70 دن بعد وہ راولپنڈی میں سڑک پر ماردی گئیں۔ اس سے قبل بیرون ملک قیام کے دنوں میں میثاق جمہوریت ہوا۔ (میثاق جمہوریت پر عمل اور انحراف ایک الگ موضوع ہے اسے پھر پر اٹھارکھئے) محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد صبرواستقامت کے ساتھ فوجی حکومت کے مظالم برداشت کئے محض مظالم ہی نہیں اسلامی پسندوں کی ہر گالی کا زخم بھی سہا۔ پیپلزپارٹی اور مشرف کے این آر او کے قصے بہت ہیں لیکن اسی این آر او کی وجہ سے نوازشریف اور ان کے خاندان کی واپسی ہوئی ورنہ وہ دس سال کا معاہدہ جلاوطنی کرکے ملازموں، خاندان اور باورچیوں سمیت ملک چھوڑ گئے تھے ،اسی این آر او کے تحت مہاجر قومی موومنٹ ایم کیو ایم کے ہزاروں کارکن رہا ہوئے لیکن این آر او کی کالک صرف پیپلز پارٹی پر ملی جاتی ہے۔ ہمارے یہاں کہنے والے کہتے ہیں پیپلزپارٹی نے سمجھوتوں کی سیاست کی، عجیب سمجھوتہ باز پارٹی ہے جس کا بانی چیئرمین قتل کے جھوٹے مقدمے میں پھانسی چڑھا اس کی صاحبزادی لیاقت باغ کے باہر ماردی گئی۔ کہتے ہیں طالبان نے قتل کیا۔ میں نے اس وقت بھی لکھا تھا 14برس بعد بھی اپنے مؤقف پر قائم ہوں کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل میں امریکہ بطور ریاست شریک تھا جبکہ کئی مقامی شریک جرم بھی تھے۔ آج بینظیر بھٹو کی 14ویں برسی ہے۔ انہوں نے پرعزم جدوجہد میں زندگی بسر کی۔ سڑک پر ماردی گئیں۔ ہماری تاریخ یہی ہے ہم آفتابوں کو پھانسی چڑھاتے ہیں اور چاندنیوں کو قتل کرتے ہیں۔ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد پیپلزپارٹی چاہتی تو بہت آسانی کے ساتھ راتوں رات اس ملک کا جغرافیہ تبدیل ہوسکتا تھا ،لیکن پیپلزپارٹی نے اپنا وزن وفاق پاکستان کے پلڑے میں ڈالا، کیوں؟ اس سوال کا جواب پیپلزپارٹی ہی دے سکتی ہے، پیپلزپارٹی آبپارہ و بنی گالہ اور جاتی امرا شریف کے محبوں کے نزدیک آجکل اندرون سندھ کے چند اضلاع کی جماعت ہے، حیرت ہے چند اضلاع کی جماعت کے خلاف یہ سارے صبح سے شام تک دشنام طرازی اور ڈیل ڈیل کے الزامات لگانے میں مصروف رہتے ہیں۔ بینظیر بھٹو نے اپنی جدوجہد، صبر اور استقامت سے خود کو ملکی سطح کا رہنما منوایا۔ بین الاقوامی سطح پر انہیں ایک مدبر دانشور کا درجہ حاصل ہوا۔ان کا سفاکانہ قتل درون سینہ راز نہیں ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ وہ 27دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں ”مجھے ڈرایا دھمکایا گیا لیکن میں فیصلہ کرکے آئی ہوں کہ اپنے ہم وطن بہن بھائیوں کے ساتھ جیؤں اور مروں گی” اس اعلان کے کچھ دیر بعد انہیں لیاقت باغ کے باہر ماردیا گیا۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''