افسانہ نگار بانو قدسیہ

معروف افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس بانو قدسیہ کی پانچویں برسی

معروف ناول نگار اور افسانہ نگاراور بانو آپا کے نام سے جانی جانیں والی بانو قدسیہ کو اپنے مداحوں سے بچھڑے پانچ برس بیت گئے۔

بانو قدسیہ مشرقی پنجاب کے ضلع فیروزپور میں 28 نومبر1928 کو ایک زمیندارگھرانے میں پیدا ہوئیں انہوں نے کنیئرڈ کالج برائے خواتین لاہور سے ریاضیات اور اقتصادیات میں گریجویشن کیا اور1951میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی۔ اردو کی مقبول و معروف ڈرامہ نویس بانو قدسیہ نے اردو اور پنجابی زبانوں میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے بہت سے ڈرامے بھی لکھے ان کے ایک ڈرامے ’آدھی بات‘ کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔

مزید پڑھیں:  کرن جوہر کے نئے پراجیکٹ میں کھرانا اور سارہ جلو گر ہونگے

یہ بھی پڑھیں:حنا الطاف کے گھر صفِ ماتم بچھ گئ

ان کے افسانوی مجموعوں میں ناقابل ذکر، بازگشت، امر بیل، دست بستہ، سامان وجود، توجہ کی طالب، آتش زیرپا اور کچھ اور نہیں کے نام شامل ہیں جبکہ دیگر تصانیف میں ایک دن، شہر لازوال، پروا،موم کی گلیاں، چہار چمن، دوسرا دروازہ، ہجرتوں کے درمیاں اورانکی خود نوشت راہ رواں سر فہرست ہیں۔انکا ناول راجہ گدھ اردو زبان کے اہم ناولوں میں شمار ہوتا ہے جبکہ ان کے لکھے گئے الفاظ اقوال زریں کا درجہ رکھتے ہیں جو کہ ہر زبان زد عام ہیں۔

بانو قدسیہ وہ لکھاری ہیں جن کی تحریر میں محبت کی تلخ حقیقت، شگفتگی و شائستگی اور اردو زبان پر مضبوط گرفت نظر آتی ہے۔انہوں نے مشہور ناول نگار، افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس اشفاق احمد سے شادی کی جن کا اردو ادب میں ایک منفرد مقام ہے۔ان کی بہترین تحریروں اور اردو ادب میں بہترین کارکردگی پر 1983 میں حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں ہلال امتیاز اور 2010 میں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا جبکہ انہوں نے 2012 میں کمال فن کا ایوراڈ بھی اپنے نام کیا۔

مزید پڑھیں:  بگ باس او ٹی ٹی 3 کا پریمیئر جون میں ریلیز ہوگا

بانو قدسیہ شدید علالت کے باعث 4 فروری 2017 کو 88سال کی عمر دنیائے فانی سے کوچ کرگئیں