کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

موضوع بحث تو وزیر اعظم کا 27مارچ کا خطاب ہے لیکن سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو سوموار کی سہ پہر وزیراعظم کے خلاف سپیکر کی منظوری سے تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی اس وقت ایوان میں متحدہ اپوزیش کے161ارکان موجود تھے ایک رکن بیرون ملک ہے ۔ اسی صبح وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کروا دی گئی مگر شام ڈھلنے سے قبل وزیراعظم نے عثمان بزدار سے استعفیٰ لے کر چودہری پرویز الٰہی کو حکمران اتحاد کی جانب سے وزیر اعلیٰ کے طور پر نامزد کردیا۔سوموار کی شام کو ہی بلوچستان عوامی پارٹی ”باپ”نے عدم اعتماد کی تحریک میں متحدہ اپوزیشن کی حمایت کا اعلان کردیا ہے اس نئے سیاسی انتظام کے اعلان کے وقت متحدہ اپوزیشن کے چاروں بڑے اور باپ کے رہنماوں نے مشترکہ پریس کانفرنس کی ایم کیو ایم والے حکومت اور اپوزیشن کی پیشکشوں کو”تول”رہے ہیں جس طرف کا پلڑا بھاری ہوا وہ پیشکشوں کو فتح قرار دے کر اس طرف چل دیں گے یہ سطور لکھنے جانے تک متحدہ اپوزیشن کے پاس169 اعلانیہ ووٹ ہیں آزاد رکن اسلم بھوتانی اپوزیشن کے ساتھ گئے تو170ہوجائیں گے بظاہر اپوزیشن کو2ووٹوں کی ضرورت ہے وہ بھی منحرف ارکان کے بغیر اطلاع یہ ہے2کی بجائے اپوزیشن کے پاس4 ووٹ ہیں زرداری ان چار ووٹوں کو جیب سے کب نکالتے ہیں جمعرات تک صورتحال واضح ہوجائے گی ، چلئے اب وزیراعظم کے اس خطاب پر بات کرتے ہیں جسے ان کے حامی شہید بھٹو کے آخری خطاب کی طرح پیش کرکے جی بہلا رہے ہیں آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ”بھٹو سا نہ کوئی اور”بھٹو بھٹو تھے خیر ہمارے محبوب وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد کے پریڈ گرائونڈ میں ایک بڑے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ مجھے بیرون ملک سے دھمکیاں مل رہی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اپوزیشن کو اکٹھا کرنے والوں کو بھی جانتا ہوں،یہ بھی کہا میری کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں البتہ ملک لوٹنے والوں کے ساتھ مفاہمت ممکن نہیں۔ یہ دعویٰ بھی کیا کہ میرے خلاف ذوالفقار علی بھٹو جیسی سازش ہورہی ہے اس موقع پر انہوں نے ایک کاغذ لہراتے ہوئے کہا کہ یہ میرے دعوے کا ثبوت ہے لیکن پاکستان کی خاطر میں مندرجات کو منظرعام پر نہیں لارہا۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری اور وزیر داخلہ شیخ رشید کی تقاریر حسب سابق مخالفین پر ذاتی حملوں، جگتوں اور الزامات کا”شاہکار”ہی تھیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وزیراعظم نے تقاریر اور میڈیا ٹاک میں مخالفین کے لئے سخت جملوں کے استعمال اور نام بگاڑنے سے درگزر کرنے کے مشوروں کو رد کردیا ہے۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جان جائے یا حکومت مگر جھکوں گا نہ این آر او دو گا، کے موقف کا پھر اعادہ کیا۔
بات تو فقط اتنی ہی ہے کہ تحریک عدم اعتماد ایک سیدھا سادہ پارلیمانی عمل تھا اسے پارلیمانی روایات کے مطابق ہی دیکھنے اور مقابلہ کرنے کی ضرورت تھی۔ پارلیمان میں جانے سے قبل انہوں نے اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ کیوں ضروری سمجھا کیا وہ پارلیمان کے مقابلہ میں اپنے حامیوں کے درمیان خود کو محفوظ اور مطمئن سمجھتے ہیں یا کسی کو بتانا چاہتے تھے کہ میں لڑوں گا ؟ یہ سوال بہرحال اہم ہے۔ دھمکیوں اور سازشوں کے ثبوت کے حوالے سے جو کاغذات انہوں نے عوامی اجتماع میں لہرائے بہتر ہوگا کہ وہ انہیں پارلیمان کے سامنے رکھ کر سوالات اٹھائیں۔ لیکن معاملہ چونکہ اب سڑکوں پر بیان ہوا ہے جواب بھی سڑکوں پر آئے گا اس کے کیا نتائج نکلیں گے یہ کسی سے مخفی نہیں۔ خارجہ پالیسی کی تبدیلی کے لئے دبائو اور خود کوملنے والی دھمکیوں کے حوالے سے کیا گیا دعوی مخالفت برائے مخالفت میں رد کرنے کی بجائے حزب اختلاف کو ایک قدم آگے بڑھ کر قومی پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا مطالبہ کرنا چاہیے تاکہ دونوں معاملات کی مکمل چھان بین ہو اور پارلیمان متحد ہوکر خارجہ پالیسی میں تبدیلی لانے کے لئے دبائو ڈالنے اور وزیراعظم کو دھمکی (اگر واقعی دی گئی ہے )دینے والی قوتوں کو منہ توڑ جواب دے سکے۔ مناسب ہوگا کہ وزیراعظم پارلیمان کے بند کمرہ اجلاس میں ان کے کاغذات پر لکھی تحریریں ارکان کو پڑھ کر سنادیں تاکہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ یہ ایک سیاسی ہتھکنڈہ ہے نیز یہ کہ پارلیمنٹ کے ارکان کے لئے بھی فیصلہ کرنے میں آسانی ہوجائے گی اور وہ سیاسی اختلافات پس پشت ڈال کر اپنی مملکت کے وقار اور وزیراعظم کی ذات کے تحفظ کے لئے کھڑے ہوں گے۔ فیصلہ اس سے مزید بہتر اور مناسب ہوسکتا ہے اگر پوری پارلیمان متحد ہوکر ملکی و قومی وقار کی حفاظت کا اعلان کرے اور دھمکی دینے والی قوت کو خبردار کرے کہ سیاسی اختلافات ہمارا داخلی معاملہ ہیں، وزیراعظم کا منصب پاکستان کی عالمی سطح پر نمائندگی ہے اسے دھمکی دینے کا مطلب پاکستان کو دھمکی دینا ہے۔ اسی طرح وزیراعظم کو چاہیے کہ وہ کسی تاخیر کے بغیر اپنے خلاف سیاسی اور عدم اعتماد کی تحریک میں بیرونی سرمایہ کے استعمال ہونے کے ثبوت بھی پارلیمان کے سامنے رکھیں وہ اگر پارلیمان کے سامنے نہیں رکھنا چاہتے تو سپریم کورٹ کے ججز پر مشتمل کمیشن بناکر اس کمیشن کے سامنے ثبوت رکھیں اور کمیشن کو فیصلہ سازی کا قانونی تحفظ بھی دیا جائے تاکہ وزیراعظم کا موقف درست ثابت ہونے کی صورت میں کم از کم ان بیرونی آلہ کاروں کو تو انصاف کے کٹہرے میں لایا جاسکے۔ یہاں ہم وزیراعظم سے یہ بھی درخواست کریں گے کہ وہ نہ صرف خود اپنے مخالفین کے نام بگاڑنے سے اجتناب برتیں بلکہ اپنے بعض منہ زور رفقا کو بھی ہدایت کریں کہ وہ ایسی تقاریر اور بیانات سے گریز کریں جن سے ماحول خراب ہونے کا خدشہ ہو۔ مکرر یہ عرض کردوں کہ ہم کسی عوامی جمہوری مملکت میں نہیں سیکورٹی سٹیٹ میں جی رہے ہیں یہ بات سمجھ لی جائے تو پھر یہ سمجھ میں آجائے گا کہ راستہ لینے کیلئے راستہ دینا پڑتا ہے۔

مزید پڑھیں:  چاند دیکھنے سے چاند پر جانے تک