کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

سرکاری طور پر دعویٰ کیا گیاہے کہ رمضان المبارک کے دوران تاجر عوام کو خصوصی رعایت دیں گے روزمرہ استعمال کی پانچ اشیاء کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا گیا ہے تاجروں نے رمضان المبارک میں دودھ اور دہی کی قیمتوں میں دس روپے فی لیٹر کمی کا اعلان کیا ۔سرکاری اعلان پر شکوک و شبہات کے اظہار کی کوئی وجہ نہیں لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ انہی کالموں میں دودھ اور دہی سرکاری نرخ سے کہیں زیادہ نرخ پر فروخت ہونے کی باقاعدہ مارکیٹ کا نام لے کر نشاندہی کی گئی تھی دم تحریر حکام کی جانب سے اس کا نوٹس لینے کی کوئی اطلاع نہیں اسے مشت نمونہ از خروارے کے طور پر لیا جائے اور دوسری جانب عوام کی جانب سے مسلسل فریاد اور شکایات کو مد نظر رکھا جائے توصورتحال مرض بڑھتا گیا جو ں جوں دوا کی کے عین مصداق ٹھہرتا ہے بہرحال تاجروں کی جانب سے عوام کو جس ریلیف دینے کا اعلان کیا گیا ہے اور دودھ دہی کی قیمتوں میں دس روپے فی کلو کی کمی کاجواعلان کیا گیا ہے اس کی گواہی صارفین اور عوام کی طرف دی جائے گی تو مستند ہوگی ۔رمضان المبارک کی آمد سے قبل ذخیرہ اندوزی پرانے سٹاک کی نئی قیمتیں وصول کرنے مشروبات کی قیمتوں میں بیس سے 150 روپے تک اضافہ اور مافیاکے متحرک ہونے کے حوالے سے مشرق کے نمائندے کی خبرتصویر کا دوسرا رخ ہے جس کے مطابق رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی اوپن مارکیٹ میں سبزیوں ‘ پھلوں ‘ دالوں ‘ بیسن ‘گوشت ‘ چاول ‘ گھی ‘ آئل ‘ کھجوروں اور دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کا سلسلہ تیز ہو گیا ہے آلو اور پیاز کی قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے اسی طرح دودھ اور دہی کے نرخ بھی بڑھائے گئے ہیںاس طرح کی صورتحال کے باوجود انتظامیہ برائے نام سستے بازاروں تک محدود ہو گئی ہے حکام کے دعوئوں کو ہمارے نمائندے کی رپورٹ سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو عملی صورتحال واضح ہو گی امر واقع یہ ہے کہ ہر سال انتظامیہ بلند و بانگ دعوے کرتی ہے کبھی کبھار منافع خوروں سے آنکھ مچولی بھی کھیلی جاتی ہے مگر قیمتوں میں کمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی وعدے اور دعوے کے باوجود حکام اور تاجر اپنا وعدہ نبھاتے ہیں۔صرف یہی نہیں رمضان سے قبل پشاور میں گیس پریشر کا مسئلہ گھمبیر ہوگیا ہے اور رمضان المبارک میں بھی گیس لوڈ شیڈنگ اور گیس ناپید ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیںاسی طرح پشاور کے نواحی علاقوں میں چوبیس گھنٹوں میں صرف چار گھنٹے بجلی آنے کی شکایات ابھی سے موجود ہیںنہ جانے آگے کیا صورتحال ہو گی یہ سارے حالات و معاملات کوئی سیاسی پروپیگنڈہ اور الزامات نہیں بلکہ زمینی حقیقت ہے جس پر حکومت اور انتظامیہ کو بروقت کان دھرنا چاہئے اور اس حوالے سے مناسب عملی اقدامات پر توجہ دی جائے ۔
سخت گیری نہیں ترغیب
طالبان حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین کو داڑھی رکھنے اول وقت میں نماز کی ادائیگی ‘ لمبی ڈھیلی قمیص پہننے شلوار ٹخنوں سے اوپر سر پر ٹوپی یا پگڑی پہننے کی سختی سے ہدایت کی گئی ہے ۔ شعائر اسلام کی سختی سے پابندی ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے جن معاملات میں شریعت میں کوئی رعایت نہیں اس میں طالبان حکومت سختی کا مظاہرہ کرے تو اس کی گنجائش ہے لیکن بعض دیگر معاملات میں سرکاری ملازمین پر خواہ مخواہ اور جبراً کوئی بات مسلط کرنے کی حمایت نہیں کی جا سکتی طالبان حکومت جید علمائے کرام پر مشتمل ہے انہیں بہتر طور پر معلوم ہے کہ کن کن امور میں رعایت کی گنجائش نہیں اور کن امور میںبلاوجہ کی سختی کی ضرورت نہیں بہتر ہوگا کہ وہ ان ہدایات کا ازسرنو جائزہ لے کر ان پر عمل درآمد کے حوالے سے اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کریں ا لبتہ ترغیب اور نصیحت کے ذریعے نرمی کے ساتھ سرکاری ملازمین کو ان ہدایات پر عمل درآمد پر آمادہ کر سکیں تو یہ بہتر صورت ہو گی۔
فوری توجہ طلب مسئلہ
اے این پی کی جانب سے چترال کے علاقہ تحصیل دروش میں پارٹی کی نامزد خاتون امیدوار کو ہراساں کرنے کے واقعے کی الیکشن کمیشن سے تحقیقات کا مطالبہ اور پولیس عملے کو تبدیل کرنے اور ان کے خلاف کارروائی کے مطالبے کا نوٹس لیا جانا چاہئے ۔ چترال جیسے علاقے میں کسی خاتون امیدوار کو اس طرح سے ہراساں کیا جانا اپنی جگہ از خود باعث حیرت امر ہے اس طرح کے واقعات کی روک تھام اور خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے کے ضمن میں اس طرح کی شکایات کا سختی سے نوٹس لینا ہی مناسب ہوگاواقعے کی جامع تحقیقات اور پولیس کی ناکامی کا نوٹس لینے میںتاخیر نہیں ہونی چاہئے اور ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے کی ذمہ داری پوری ہونی چاہئے ۔ نیز خاتون امیدوار کو تحفظ دینے میں ناکامی پر انتظامیہ سے بھی باز پرس ہونی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  منرل ڈیویلپمنٹ کمپنی کا قیام