جب تکبر کو تکبیر کی نکیل پڑی

1998کو پاکستان ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کی ساتویں اور مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بنا ۔یہ اس خواب کی تعبیر تھی جو سقوط ڈھاکہ کے بعد ایک درماندہ حال اور شکست خورہ قوم کی آنکھوں میں اترا تھا بالکل اسی طرح جیسے بھیڑیوں میں گھری تنہا ہرنی جان بچانے کے لئے اپنی تمام قوت و صلاحیت کو مجتمع کرکے اپنی استعداد سے زیادہ لمبی قلانچیں بھرتی ہے۔دولخت ہوئے ملک کا ایٹمی طاقت بننے کا خواب اپنی طاقت اور صلاحیت سے زیادہ لمبی قلانچ کے سوا کچھ اور نہیں تھا۔اس خوب کو دیکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو تھے ۔اس خواب کی تعبیر کی تلاش کے ابتدائی مراحل کو آسان بنانے میں ان کے عالمی دوستوں سعودی فرما فروا شاہ فیصل اور لیبیا کے سربراہ معمر قذافی کا کردار نمایاں ہے۔جنرل ضیاء الحق آئے تو بھٹو کی ضد میں انہوں نے اس خواب کو اپنا خواب بنائے رکھا یہاں تک کہ انہی کے دور میں پاکستان اس صلاحیت کے حصول میں کامیاب ہوگیا اور انہوں نے بھارتیوں کے جارحانہ عزائم کے جواب میں ان کے کانوں میں یہ بات ڈالنا شروع کردی کہ اس بار جارحیت کی حماقت نہ کرنا ہمارے پاس ایٹم بم ہے ۔ضیاء الحق کی یہ سرگوشی بھارتیوں کے منصوبوں پر خاک ڈال دیتی ۔ایک جنگ جس کے بارے میں خود بھارتی مصنف نے اپنی کتاب کا عنوان رکھا کہ ”ایک جنگ جو لڑی نہ جا سکی” محض ایٹم بم کی موجودگی کی سرگوشی سے لڑی ہی نہیں گئی۔ پاکستان کے اس ایٹمی پروگرام کو مغرب نے روز اول سے اپنے نشانے پر رکھا یہ دنیا کا واحد ایٹم بم تھا جسے اسلامی بم کانام دیا گیا ۔حالانکہ اسرائیل کابم یہودی بم کہلایا نہ امریکہ اور برطانیہ کا بم عیسائی بم نہیں کہلایا،بھارت کے بم کو ہندو بم کہا گیا اور نہ چین کے بم کو بدھسٹ بم کہا گیا۔مکانات تعمیر کرنے والی کوئی کمپنی نہیں ہوتا کہ جو لوگوں کو چھت فراہم کرے اور نہ کپڑا بننے کی فیکٹری ہوتا ہے جو عوام کے تن ڈھانپنے کاسامان کرے۔اس کا براہ راست تعلق عوام کی خوش حالی سے نہیں ہوتا مگر اس کے باوجود ایٹمی طاقت کے حصول سے عوام کی خوشحالی وابستہ ہوتی ہے۔پاکستان جیسے ملک میں جو روزاول سے بھارت کی صورت میں براہ راست اور افغانستان کی صورت میں بالواسطہ خطرے میں گھرا رہا اور تین باقاعدہ جنگوں سے بھی گزرا اور اپنا ایک حصہ گنوا بیٹھا ایٹم بم تحفظ کی علامت ہوتا ہے۔یعنی اس طاقت کے حصول کے بعد آپ کم از کم ڈیٹرنس کے اصول کے تحت دشمن کے اچانک پل پڑنے والے خوف اور خطرے سے نکل آتے ہیں ۔یوں آپ کی توجہ معاشی خوش حالی پر مرکوز ہوتی ہے ۔روایتی ہتھیاروں کی دوڑ میں بہت زیادہ شامل ہونے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔جنگ نہ ہونے کا احساس دراصل امن قائم ہونے کا ہی نام ہے اور امن کا ماحول غیر یقینی کا خاتمہ کرتا ہے ۔ایٹم بم کے بعد بننے والے ماحول سے فائدہ اُٹھانا سیاسی اور معاشی منصوبہ سازوں کاکام تھا جس میں بری طرح غفلت برتی گئی ۔ 1998 میںپاکستان میں میاں نوازشریف کی حکومت تھی اور بھارت میں اٹل بہاری واجپائی حکمران تھے ۔ایک روز اچانک یہ خبر پھیلی کہ بھارت نے راجھستان میں پوکھران کے مقام پر کئی ایٹمی دھماکے کئے ہیں۔یہ پاکستان کے لئے کھلا چیلنج تھا ۔بھارت خود کو اعلانیہ اور باضابطہ ایٹمی طاقت قرار دے چکا تھا ۔اب دنیا کی نظریں پاکستان پرلگی تھیں ۔دنیا جانتی تھی کہ پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کر لی ہے ۔پاکستان کے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان متعدد مواقع پر اس کا کھلا اعلان کرچکے تھے مگر دنیا کے پاس اس دعوے کو جانچنے کا کوئی پیمانہ تھا نہ ثبوت۔بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان میں یہ سوال شد ومد سے اُٹھایا جانے لگا کہ اب پاکستان کو کیا کرنا چاہئے ۔پاکستان اور بھارت کے معاملے میں امریکہ اور دوسری طاقتوں کے دوہرے پیمانے اور میعار اس وقت بھی موجود تھے ۔دونوں طبقات اپنے موقف کے حق میں بھرپور دلائل دیتے رہے ۔اس دوران امریکہ بھی حسب توقع بیچ میں کود پڑا اور امریکیوں نے پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے روکنے کے گاجر اور چھڑی کی روایتی پالیسی اختیار کر لی ۔کبھی امریکی پاکستان کو دھمکاتے اور سنگین نتائج سے ڈراتے تو کبھی بھاری مالی امداد کی پیشکش کرتے ۔اس فیصلہ کن گھڑی میں پاکستان کی حکومت نے بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے کرنے کا اعلان کیا اور یوں اٹھائیس مئی کو بلوچستان چاغی کے پہاڑ پے در پے ایٹمی دھماکوں سے لرز اُٹھے ۔ اس دن کو یوم تکبیر کا نام دیا گیا یعنی رب کی کبریائی اور بڑائی کا دن۔وقت نے ثابت کیا کہ پا کستان کی ایٹمی صلاحیت کسی جارحیت کے لئے نہیں بلکہ اپنے دفاع کے لئے ہے ۔جب سے پاکستان نے ایٹمی توانائی کے حصول کے لئے سنجیدہ کام کا آغاز کیا تو تین جنگیں لڑنے والے پاکستان اور بھارت کے درمیان چوتھی جنگ نہیں ہوئی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کا ایٹم بم جنگ کے لئے نہیں بلکہ امن کے لئے ضروری ہے۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''