پی ٹی آئی کا مستقبل

ہونا تو چاہئے تھا کہ آپ اس وقت خیبرپختونخواہ کی جامعات کی بدحالی پر اس وقت پڑھ رہے ہوتے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہر مہینے بعد صوبے کے کسی نہ کسی ضلع میں نئی یونیورسٹی کا افتتاح ہو رہا ہوتا تھا۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ فنڈز نہ ہونے کے باعث جامعات بند ہونے کے قریب ہیں۔ ہم اس وقت سے ڈر رہے تھے کہ جب آگ آپ کے دامن کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی تب آپ کو اندازہ ہوگا کہ آپ کہاں پہنچے ہیں۔ ہسپتال برباد، یونیورسٹیاں ویران ہونے کو ہیں۔ نوکریوں کو تو بھول جائیں۔ سوشل میڈیا پر تحریک انصاف پشاور کے ایک کارکن کا رونا دھونا دیکھا موصوف کہہ رہے تھے کہ نوکریوں میں ظلم ہورہا ہے۔ شاید وہ خواب سے بیدار ہوئے ہیں۔ چند منٹ کی کلپ اور پھر لوگ بھول بھی گئے۔پھر پی ٹی آئی کے ہی ایک رکن صوبائی اسمبلی کو گلے شکوے کرتے دیکھا۔ ہر کسی کو اپنی پڑی ہے۔ کون کیا کر رہا ہے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اب ہر آنے والا دن اس جماعت کے لئے کوئی نہ کوئی سرپرائز لے کر طلوع ہوگا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اب آہستہ آہستہ اکیلے پڑنے لگے ہیں۔ باقی ملک میں تو خیر پہلے سے ہی ان کے پاس کوئی تگڑی آواز نہیں تھی لیکن ذرا یاد کریں خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کے حق میں کیسی کیسی گونجدار آوازیں گونجا کرتی تھیں۔ سابق وفاقی وزرا مراد سعید، شہریار آفریدی اور علی امین گنڈاپور کیسے منہ سے آگ اگلتے تھے اوپر سے دھیمے لہجے میں علی محمد خان شائستگی کے ساتھ پارٹی کا دفاع کرتے نظر آتے تھے۔سابق سپیکر اسد قیصر تو تحریک عدم اعتماد کے ساتھ ہی تحریک انصاف کے سربراہ سے دور ہو گئے تھے۔ اب آہستہ آہستہ یہ لوگ منظر نامے سے ہٹتے جا رہے ہیں۔
ہم عرصہ سے ممنوعہ فنڈنگ کیس کا انتظار کر رہے تھے۔راقم تو بسا اوقات فارنرز کا بھی ذکر کر دیتا تھا۔جس میں سے کئی واپس اپنے اپنے ممالک کو جا چکے ہیں۔ ہمیں معلوم تھا کہ الیکشن کمیشن میں موجود یہ کیس تحریک انصاف کے لئے بارودی سرنگ ثابت ہوگی۔ قانون دانوں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ الزامات ثابت ہونے کے بعد اس جماعت پر پابندی کوئی انہونی بات نہیں ہوگی۔ الزامات ثابت ہو چکے ہیں۔ اب باقی کام عدالت کا ہے۔ تحریک انصاف نامی پراجیکٹ پر جتنی محنت کی گئی سرمایہ لگایا گیا پارٹی پر پابندی کے امکانات تو نظر نہیں آتے البتہ سربراہ عمران خان کی برطرفی سے بات بن جائے۔ممکنہ فیصلے میں یہ بھی امکان ہے کہ پارٹی کا نشان اور نام میں مناسب تبدیلی کا راستہ نکالا جائے۔ ان سب باتوں سے تحریک انصاف کے اندرونی حلقے خوب واقف ہیں۔ سابق وزیردفاع پرویزخٹک جو طاقتور حلقوں میں قبولیت اور مقبولیت دونوں رکھتے ہیں ان کے ساتھ ایک ملاقات میں ان پر یہ سب کچھ واضح کردیا گیا ہے۔ ان کو پارٹی کے نئے سربراہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ بہت سارے تجزیہ نگار شاہ محمود قریشی کے بارے میں قیاس ارائیاں کر رہے ہیں۔ سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی ماضی میں وزیراعظم بننے کی کوششیں اور پارٹی کے اندر ان کی بے پناہ مخالفت کے باعث مگر ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ دور کی کوڑی لانے والے مگر اس بات پر بھی بضد ہیں کہ پارٹی کے سربراہ سابق خاتون اول کو بھی اپنی جگہ پر لاسکتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ کسی اور کو اپنی نشست دے دیں۔ ان کا کوئی اعتبار نہیں ہوسکتا ہے سابق وزیر اعلی پنجاب بزدار کی طرح کوئی امیدوار ان کی نظر میں ہو اور اسی کو وہ پارٹی کی صدارت سونپ دیں۔ جب اسلام آباد میں یہ باتیں ہونے لگیں تو سمجھ جائیں کہ بات کہاں تک پہنچی ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ "عمران خان آخری بال تک کھیلے گا” لیکن تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد یہ ڈائیلاگ خاصا بدنام ہو چکا ہے۔ اس لئے اب اسی کو ہی آخری بال سمجھا جائے۔ بات پارٹی کی صدارت کے گرد ہی گھومے گی کیونکہ پارٹی کے خاتمہ کے بعد خیبرپختونخواہ اور پنجاب میں پارلیمانی بحران اور سیاسی عدم استحکام کا خطرہ ابھرتا ہے۔اس لئے پارٹی سربراہ کی تبدیلی پر ہی اکتفا کیا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ پنجاب اسمبلی فیصلے کے بعد عدلیہ کو جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اس کے بعد دوبارہ اس قسم کا فیصلہ کرنا شاید عدلیہ کے لئے ممکن نہ ہو۔ فی الوقت تو خواہش ہے کہ کسی طریقے سے یہ پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کر دے اور نئے انتخابات کے ذریعے پرانے پاکستان کی طرف واپس لوٹا جائے۔
اس دوران کوشش کی جا رہی ہے کہ اس اقتصادی بحران پر قابو پایا جائے۔ حکومت سنبھالنے سے قبل ن لیگ نے بڑے بڑے دعوی کیئے تھے کہ وہ ملک کو اقتصادی بحران سے نکال دیں گے تاہم ساری کوششیں رائیگاں گئیں۔ گویا وزیراعظم شہبازشریف کی شہرت پطور منتظم اور ن لیگ کی شہرت بطور بہتر اقتصادی ماحول کی حقیقت کچھ اور تھی۔ یہاں پر بھی پاک فوج کے سربراہ نے آگے بڑھ کر معاملہ سنبھال لیا ہے۔ اب آئیندہ کچھ مہینے اہم ہیں۔ اگر تو اس موجودہ سیٹ اپ نے معاملات سنبھال لئے تو تحریک انصاف کے دور کو تاریخ میں ایک تاریک دور کے طور پر یاد رکھا جائے گا اور اگر معاملات بگڑ گئے تو تحریک انصاف کے آئیندہ انتخابات میں دوبارہ اقتدار میں آنے کی راہ ہموار ہوگی۔
خیبرپختونخواہ کی صورتحال تو آپ کے سامنے ہے۔ ادارے زبوں حالی کا شکار ہیں۔ بلین ٹریز پراجیکٹ اور بی آر ٹی انتہائی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہیں۔ دونوں کے حوالہ سے سنگین کرپشن کے کیسز موجود ہیں۔ خود بی آر ٹی کے حوالہ سے یہ کہا جا رہا ہے کہ محض الیکشن جیتنے کے لئے اتنا بڑا جوا کھیلا گیا۔ جو بھی نئی حکومت آئے گی وہ بی آر ٹی کے مالیاتی معاملات شائد نہ سہہ پائے۔ اس طرح مفت علاج کی شکل میں بیمہ یا انشورنس کا جو سلسلہ شروع کیا گیا ہے اس سے نجی ہسپتالوں اور میڈیسن والوں نے تو کروڑوں بلکہ اربوں کمائے لیکن جب غیرملکی امداد رکے گی اور عوام کو انشورنس کی قسطیں جمع کرنے کا کہا جائے گا تب کیا ہوگا؟ تعلیم کی حالت تو آپ نے دیکھ لی ضم اضلا ع میں سکول بند ہو چکے ہیں۔ وزیرتعلیم خود گھر جا جا کر بچوں کو سکول آنے کے لئے آمادہ کر رہے ہیں۔ دراصل والدین کو پتا ہے کہ سرکاری سکولوں کی کیا حالت ہے اور نجی سکولوں کو بچے بھیجنے کی ان کی مالی حالت اجازت نہیں دیتی۔ اس حالت میں تحریک انصاف کی حکومت اور رہنماں کو بیلٹ باندھ لینا چاہئے آگے کی پرواز خاصی ناہموار ہے۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا