پلس کو مائنس کرنے کاشوق

ملک میں ایک نیا ہنگامہ برپا ہے اور اس بار ہنگامے کا نام فارن فنڈنگ یا ممنوعہ فنڈنگ ہے ۔اپریل سے وقفے وقفے سے طوفان اُٹھانے کا سلسلہ جاری ہے مگرہر بار لہریں اُٹھتی تو ہیں مگر ساحل سے ٹکرائے بغیر بیٹھ جاتی ہیں ۔توشہ خان ،فرح گوگی اور نجانے کتنی ہی لہریں اُٹھیں اور بیٹھ گئیں ۔تازہ لہر ممنوعہ فنڈنگ کے نام سے اُٹھی ہے اور یہ وہ تُرپ کا پتا ہے جو برسوں سے ایک فیصلہ کن کشمکش اور موڑ کے لئے سنبھال کر رکھا گیا تھا ۔یوں لگتاہے کہ وہ فیصلہ کن موڑ آگیا ہے اسی لئے یہ ٹرمپ کارڈ پھینک دیا گیا ۔اس ٹرمپ کارڈ میں امیدوں کا ایک جہان پوشیدہ تھا ۔وہ امیدیں عمران خان کو پاکستان کے قومی منظر سے مائنس کرنے اور انہیں اکھاڑے سے نکال باہر کرنے کے گرد گھومتی رہی ہیں ۔بہت سوں کو تو یقین تھا کہ یہ ٹرمپ کارڈ استعمال کرنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی ۔کرکٹ کا کھلاڑی سیاست سے نابلد سیاست میں روایتی طریقوں کے استعمال سے ناآشنا شخص جب حالات کی زد پر آئے گا تو خود بخود منظر خالی کرکے کسی دور دیس سدھار کر زندگی کے خوبصورت دنوں کی یادیں تازہ کرتا رہے گا ۔یہ اندازے کی ایسی غلطی ثابت ہوئی جس کا خمیازہ اب قوم بھگت رہی ہے ۔عمران خان کو ہٹانے والوں نے انہیں اپنے تئیں مائنس ہی کر دیا تھا ۔اس مائنس کو مزید پکا کرنے کے لئے اسد عمر سمیت چار پانچ لوگوں کو آگے آکر وزرات عظمیٰ کی کرسی سنبھالنے کی پیشکش بھی ہوئی ۔عمران خان کی برطرفی سے چند ہی ہفتے پہلے پی ڈی ایم کی قیادت نے دوباتیں بہت تواتر کے ساتھ دہرائی جانے لگیں ۔شہباز شریف نے تو باضابطہ طور پر مائنس عمران فارمولہ پیش کیا اور کہا سب کی مشترکہ حکومت بنائیں جو خون پسینہ بہا کر دن رات محنت کرکے ملک کی خدمت کرے ۔اس کے ساتھ ہی مسلم لیگ ن کے حلقوں نے یہ کہا کہ عمران نیازی کی تو سیاست ہی ختم ہو رہی ہے وہ تو کسی بیرونی ملک میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لیں ۔یوں لگتا ہے سکرپٹ کے مطابق برطانیہ سمیت کئی ملکوں سے عمران خان کی میزبانی کے لئے بات بھی کی گئی ہوتی۔ یوں عمران خان کو سیاست سے ہی نہیں ملک سے مائنس کرنے کی تیاری بھی مکمل تھی ۔ان کے ممکنہ جانشینوں کو شارٹ لسٹ بھی کر لیا گیا تھا اور اسد عمر نے تو اس پیشکش کا بھانڈہ پھوڑ دیا ہے ۔ان منصوبوں کو اصل تقویت ان سرویز سے مل رہی تھی جن میں عمران خان کی مقبولیت کو بہت نچلی سطح پر دکھایا جاتا تھا ۔چین کی کچھ کمپنیاں جو اپنی دھاک بٹھا کر بعض ایسے معاہدات کرگئی تھیں کہ جن میں پاکستان کا خسارا تھا ان معاہدوں کی شفافیت کے لئے نظر ثانی سے ناخوش تھیں اورچین کی کاروباری کمپنیوں کو ریاست کی ناراضی کا رنگ دے کر عمران خان کو مائنس کرنے کو عین تقاضائے قومی مفاد بنا کر پیش کیا گیا تھا ۔مائنس پلس کے اس کھیل میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب برطرفی کے بعد عمران خان کی مقبولیت بڑھتی چلی گئی ۔انہوں نے ڈونلڈ لو کے سائفر کو پروانہ غلامی بنا کر قوم کے سامنے پیش کیا اور یوں ان کی سیاسی لڑائی آزادی اور غلامی کا معرکہ بن کر رہ گئی۔اس کے بعد جس شخص کو مائنس کرنا مقصود تھا عوام میں پلس ہوتا چلا گیا ۔اب عوام میں پلس ہونے کا رجحان اور محلات میں مائنس ہونے کی خواہش میں ایک گہرا تضاد پیدا ہوچکا ہے۔مائنس کرنے کی جو بھی تدبیر ہوتی ہے چند بعد اُلٹی پڑ جاتی ہے ۔ایک ٹویٹ سے کہانی شروع ہوتی ہے اور دیکھتے دیکھتے ٹویٹ در ٹویٹ کے ساتھ ٹی وی سٹوڈیوز کا گرماگرم موضوع بن جاتی ہے مگر ایک جلسہ اس کہانی کو انجام تک پہنچاتا ہے ۔اب تازہ کہانی کا نام ممنوعہ فنڈنگ ہے یہ مدر آف آل بمبز کی طرح ہے جسے امریکہ نے طالبان کو کچلنے میں ناکامی کے بعد تنگ آکر جاتے جاتے افغانستان پر پھینکا تھا ۔اس مقدمے میں عمران خان غلط بیانی کی بنیاد پر سیاست سے مائنس ہو سکتے ہیں ۔یہ وقت کی ضرورت ہے کیونکہ عمران خان اس قدر پلس ہو گئے ہیں کہ پی ڈی ایم کے چودہ کھلاڑیوں میں سے کوئی بھی اکھاڑے میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔نو حلقوں سے ضمنی انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان ان کے اس اعتماد کا مظہر ہے جس کا راز کسی کو معلوم نہیں ۔عمران خان پاکستان کی مروجہ سیاست اور ممنوعہ فنڈنگ کیس میں اس لحاظ سے نااہل ہی ہیں کہ پاکستان کے سیاسی رواج کے برعکس انہوں نے ملک کے اندر سے رقم باہر لے جانے کے رواج کو ترک کرکے باہر سے پیسہ ملک میں لانے کا رواج ڈالا ۔لوگ ملک کے اندر سے پیسہ باہر لے جا کر جائیدادیں خریدتے ہیں مگر یہ شخص باہرکی دنیا میں اپنا فلیٹ بیچ کر پیسہ قانونی ذرائع سے ملک کے اندر لاتا ہے ۔زمانے کے رواجوں سے ہٹ کر چلنا فردجرم کا سب سے اہم نکتہ ہے ۔اب عمران خان کو مائنس کرنے کی باتیں زوروں پر ہیں ۔عوام میں پلس ہوجانے والے ہر کردار کو محلات کے ذریعے مائنس کرنے کا شوق اب ہمارا قومی عارضہ ہے ۔یہ شوق اب بھی سرچڑھ کر بول رہا ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ فارن فنڈنگ کا یہ تماشا اور یہ طوفان کب اپنا اثر اور رنگ کھودیتا ہے؟۔بقول منیر نیازی
شہر کو تو دیکھنے کو اک تماشا چاہئے

مزید پڑھیں:  حد ہوا کرتی ہے ہر چیز کی اے بندہ نواز