مجھے ڈر ہے میرے چارہ گر۔۔۔

اس وقت مُلکی سیاست میں خاصی شدت پائی جاتی ہے۔ سیاسی فساد ختم نہیں ہورہا،حصول ِ اقتدار کے لیے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف بیہودہ گوئی اور الزام تراشی میں پیش پیش ہیںاور مقتدر طبقات اپنے مفادات میں آئینی اداروں کے خلاف انتہا پسند روئیے اختیار کر چکے ہیں۔ اقتدار کی یہ لڑائی سیاسی خلفشار اور بحران کو مزیدگھمبیر بنا رہی ہے۔اس کو حل کرنے کی صلاحیت کسی میں دکھائی نہیں دیتی،ایک فریق اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کی فکر میں ہے اور دوسرا فریق اقتدار میں واپسی کے لیے کسی کی مدد کا طلبگار ہے ۔جانے اس کا انجام کیا ہو؟ مُلک مختلف بحرانوں کی لپیٹ میں ہے اور اس سے نکلنے کی راہ کسی کو نہیں سوجھ رہی، اہل سیاست آپس میں مل بیٹھنے کو تیار نہیں کہ کوئی حل تلاش کیا جائے۔ اب یہی لگتا ہے کہ ہر نئی حکومت تمام خرابیوں کی ذمہ دار سابقہ حکومت کو ٹھہرائے گی اور پچھلی حکومت سے زیادہ غیر مستحکم ثابت ہو گی۔
مُلک میں معاشی دیوالیہ پن کا خطرہ برقرار ہے ، مہنگائی مسلسل بے لگام ہے، معیشت شروع ہی سے منافع خوروںکے حوالے ہے اور ایسے میں اہل سیاست ”چور ڈاکو” کے بیانیوں سے ایک دوسرے کو بے توقیر اور جمہوریت کو بدنام کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال کس قدر افسوسناک ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے رہنماؤں اور کارکنوں کے ہاتھوں اپنا وقار کھو رہی ہیں۔ سیاسی رہنماؤں نے اپنی اپنی جماعتوں کے کارکنوں اور حمایتیوں کی سیاسی تربیت کرنے کی بجائے ایسی تلخ روایتیں متعارف کرا دی ہیں کہ سیاست تضحیک کا باعث بن چکی ہے۔ یہ امر زیادہ ہی پریشان کن ہے کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ مختلف طرح کے انتہا پسندانہ، جاہلانہ اور خود ساختہ جھوٹے بیانیوں کو اپنا چکا ہے ،جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اُنہیں ریاست اور جمہوریت کے حوالے سے کسی نظریاتی تصور کا پاس نہیں رہا۔ اُن کی سوچ رجعت پسندانہ ہے کہ ہر دم محفلوں اور سوشل میڈیا پر اُلجھے رہتے ہیں ۔ اب تو گزشتہ تین چار مہینوں سے حالت یہ بنی ہوئی ہے کہ گلیوں محلوں میں ان سیاسی شخصیات کے اندھے پیروکار باہم دست و گریباںہو رہے ہیں۔ یہاں تک کہ میڈیا چینلز پہ گفتگو کرنے والے ارسطو اپنی اپنی وفاداریوں کی قیمت چکانے کو جھوٹی باتیں پھیلا رہے ہوتے ہیں۔یہ سیاست بھی عجیب کھیل ہے جس کا کوئی رخ نہیں، بس اچانک پلٹا لیتا ہے اور یہ متعصب تجزیہ کار منہ میں انگلیاں دبا کر رہ جاتے ہیں۔
ہمارا مُلک ایک جمہوری مُلک ہے اور اس کے آئین سے ہم بندھے ہوئے ہیں۔ ہمارا پارلیمان ، ادارے، عوامی حقوق اور پارلیمانی نظام اسی آئین کے مرہونِ منت ہیں۔ ہمارے سیاسی اکابرین ہی ہمارے چارہ گر ہیں مگر دکھ یہ ہے کہ ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو کھلم کھلا آئین شکنی کر رہے ہیں۔ کبھی پارلیمانی نظام کو ختم کرنے کے منصوبے تو کبھی صدارتی نظام لانے کی سازشیں۔ سرِ عام آئینی اداروں کی تذلیل اور لوگوں کو ان کے خلاف بھڑکانے کی کوششیں۔ ایسے اقدامات یقیناً ایک ریاست کوکمزور کرتے ہیں۔اہل سیاست مُلکی مسائل حل کرنے کو ہمیشہ آپس میں مکالمہ کرتے ہیں،ان کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ سچ اور حقائق کا سامنا کرتے ہیں۔ تنقیدسن کراپنا جائزہ لیتے ہیں۔ آئین کااحترام اور عدالتی فیصلوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ ایسانہیں ہوتا کہ گالم گلوچ کو تنقید کا نام دیا جائے اور اپنے خلاف ہرفیصلے پر اداروں کو آڑے ہاتھوں لیا جائے ۔اسی باعث اب عدلیہ پر بہتان طرازی سے فیصلوں کو متنازعہ بنایا جارہا ہے۔ ہاں کسی کے غیر جمہوری عمل کی تادیب تو ہو سکتی ہے اور کسی فیصلہ کو مزید آئینی و قانونی شقوں میں پرکھا جا سکتا ہے مگر اداروں کو ہزیمت کا نشانہ اور ان کے وقار کو پامال نہیں جاسکتا۔ ایوان کے تقدس اور انسانی اخلاق کی پرواہ کیے بغیر بہت سے اراکین اسمبلی قانون سازی اور چارہ گری کی بجائے گالیوں کا جھاڑ باندھ کر اپنے مخالفین کو ذلیل کرتے ہیں۔اس پر پارٹی کے رہنما انہیں دلیری اور بہادری سے نسبت رکھنے والے القابات دیتے ہیں۔ مُلک کے سنجیدہ طبقے اور اہل دانش اس صورتحال کے تناظر میں فکر مند ہیں کہ ان سیاسی لوگوں کے کیا مقاصد ہیں اور کن پسِ پردہ عناصر کے اشاروں پہ یہ لوگ کھیل رہے ہیں۔ کیا ان کی سیاست کا یہی ایک محور ہے کہ بس اقتدار میں رہا جائے ورنہ قانون شکنی،الزام تراشی، نفرت آمیزی اور قوم کو تقسیم کرنے کے حربے استعمال کیے جائیں۔ کیا اہل سیاست یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کی ساکھ کو خراب کیا جارہا ہے اور اُنہیں سیاست کرنے کی بجائے محض وارداتیں کرنے کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ اہل دانش کو یہ فکر لاحق ہے کہ کہیں ایسی سازش تو نہیں کہ اہل سیاست کو ایک دوسر ے کی مخالفت میں اس قدر بے وقار بنا دیا جائے کہ لوگوں کا سیاست پر سے اعتماد اُٹھ جائے۔ انہیں کھلی آزادی دی گئی ہے کہ جو کہیں اور کریں ، کوئی پوچھ گوچھ نہیں چاہے مُلک کی سلامتی داؤ پہ ہو یا من گھڑت بیانیوں کی آڑ میں ادارے شدید عوامی دباؤ میں ہوں۔ ان معزز چارہ گروں کو چاہیے کہ وہ یہ محاذ آرائی چھوڑ دیں،بھلے کسی ایک کو سہولت حاصل کیوں نہ ہوکیونکہ ایک بار اگر جمہوریت کاچراغ بجھ گیا تو نہ کوئی نظام باقی رہے گا اور نہ ہی تاریخ میں ان کا نام ہوگا۔

مزید پڑھیں:  حکومت کیلئے کام مت دیکھیں