طعنوں کی پرواہ کیے بغیر علم حاصل کرنے کا نتیجہ

امام اصمعی رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں:
’’میں بصرہ میں طلبِ علم کے سلسلے میں آیا ہوا تھا اور تنگی کا شکار تھا۔ میں جہاں رہتا تھا وہاں پر ایک سبزی فروش کی دکان تھی۔جب بھی میں صبح سویرے اپنے گھر سے نکلتا وہ مجھ سے لازمی دریافت کرتا:

’’تم کہاں جا رہے ہو؟‘‘
اصمعی رحمۃ اللہ علیہ: فلاں محدث کے پاس۔‘‘
جب شام کو میں لوٹتا تو پھر پوچھتا: ’’کہاں سے آ رہے ہو؟‘‘
اصمعی رحمتہ اللہ علیہ: ’’فلاں’’تاریخ اور لغت‘‘ کے استاذ کے پاس سے۔‘‘
ایک دن وہ مجھے کہنے لگا:
’’اے دوست! میں تمہیں ایک وصیت کرنا چاہتا ہوں، اسے ضرور قبول کرنا!

ابھی آپ کی ابھرتی جوانی ہے، اسے ہرگز ضائع نہیں کرنا! روزی کمانے کی محنت میں لگ جائو اور اپنی ساری کتابیں میرے حوالے کر دو، تاکہ انہیں ایک گڑھے میں ڈال دوں اور اوپر سے اس پر پانی بھی انڈیل دوں،پھر دیکھوں کہ کچھ دنوں کے بعد اس سے کیا نکلتا ہے، اللہ کی قسم! اگر تم ساری کتابیں دے کر مجھ سے سبزی کی گٹھڑی بھی طلب کرو تو وہ بھی نہ مل سکے گی، کیوں کہ کتابوں سے کبھی بھی بھوک نہیں مٹتی۔‘‘

اصمعی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں:
’’میں روز روز کی اس کی ان باتوں سے تنگ دل ہو گیا۔چناں چہ میں نے فیصلہ کر لیا کہ اب رات ہی کو گھر سے نکلا کروں گا اور رات ہی کو واپس لوٹوں گا، تاکہ اس سے ملاقات ہی نہ ہو۔ مگر کوئی ذریعہ معاش نہ ہونے کی وجہ سے کچھ دنوں کے بعد میرے حالات بگڑ گئے اور میں اپنے گھر کا اہم سامان فروخت کرنے پر مجبور ہو گیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ میرے پاس ایک دن کا خرچہ بھی باقی نہ رہا،بال بھی بڑھ گئے،کپڑے بھی گندے ہو گئے اور بدن بھی میلا کچیلا ہو گیا،غرض کہ ملنگوں جیسی حالت ہو گئی اور اس سبزی فروش کی باتیں اب رہ رہ کر یاد آنے لگیں۔
میں کافی پریشان تھا اور اپنے حال میں غور و فکر بھی کر رہا تھا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہئے؟
انہی سوچوں میں ڈوبا میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک دروازے کے کھٹکھٹانے کی آواز آئی،دیکھا تو بصرہ کے گورنر محمد بن سلیمان ہاشمی کا قاصد دروازے پر تھا اور وہ مجھ سے کہہ رہا تھا:

’’امیر آپ کو یاد فرما رہے ہیں؟‘‘
اصمعی رحمۃاللہ علیہ:
’’امیر اُس آدمی سے مل کر کیا کریں گے،جس کا فقر و فاقہ نے یہ حال کر رکھا ہو،جو تم دیکھ رہے ہو؟‘‘
وہ میری تنگی اور بُری حالت کو دیکھ کر واپس پلٹ گیا اور جا کر امیر کو اطلاع دی کہ ان کا تو بہت بُرا حال ہے۔ کچھ دیر بعد جب وہ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک صندوق تھا، جس میں کپڑے تھے،عطر اور ایک ہزار دینار کی تھیلی تھی۔
پھر کہنے لگا:

امیر نے مجھے کہا ہے کہ’’فوری طور پر انہیں حمام)غسل خانہ( میں جانے کا کہا جائے اور نئے کپڑے پہننے کا کہا، لہٰذا آپ جلد از جلد اس میں سے اچھا لباس زیب تن کریں اور باقی آئندہ کیلئے محفوظ کر لیں!‘‘

کپڑے پہننے کے بعد وہ مجھے ایک بڑے دستر خوان پر لے گیا،جہاں انواع و اقسام کے کھانے رکھے ہوئے تھے۔ کھانے سے جب فارغ ہوا تو اس نے مجھے خوش بوئوں میں نہانے کا حکم دیا، اس نے جو مجھے کہا،وہ سب میں نے کر لیا اور اُسے خوب دعائیں دی۔
پھر میں اس کے ساتھ محمد بن سلیمان کے محل میں گیا، انہیں سلام عرض کیا۔ انہوں نے مجھے اپنے بہت ہی نزدیک بٹھایا اور خوب عزت دی،اس کے بعد وہ مجھ سے مخاطب ہوئے اور فرمایا:

’’امیر المومنین کے بیٹے کی تعلیم و تربیت کیلئے بطورِ استاذ آپ کے نام پر اتفاق ہو گیا ہے،لہٰذا آپ کو امیر المومنین کے دربار میں حاضر ہونا ہے،اب آپ تیاری کر لیں،کیوں کہ وہاں جانا ہے۔‘‘

اصمعی رحمتہ اللہ علیہ: ’’آج تو مجھے چھوڑ دیجیے!کل ان شااللہ تعالیٰ ترتیب بنا کر پھر روانہ ہو جائوں گا۔‘‘
انہوں نے حامی بھر لی۔ میں نے اُن کے ہاتھوں کو چوما اور دعائیں دیتا ہوا اپنے گھر آ گیا۔ کتابیں ،کپڑے اور دیگر ضروری سامان کی تیاری کی۔ باقی سامان کو گھر میں ہی اچھے طریقے سے محفوظ کیا اور اُس پر ایک بوڑھی عورت کو نگران مقرر کیا،تاکہ گھر کی دیکھ بھال کرے۔

صبح سویرے ہی امیر کا قاصد مجھے لینے کیلئے آ گیا،ایک بہترین سبک رفتار سواری پر،جس پر انتہائی خوب صورت کجا وہ تھا اور ضرورت کا تمام سامان موجود تھا مجھے سوار کیا اور وہ بھی میرے ساتھ سواری میں بیٹھ گیا اور ہم بغداد پہنچ گئے۔

بغداد پہنچنے کے بعد اب ہماری سواری کا رخ شاہی دربار تھا۔ یہ میری زندگی کا پہلا موقع تھا کہ بادشاہوں کے دربار میں حاضر ہو رہا تھا، ہارون رشید کے بارعب اور جاہ و جلال والے محل میں داخل ہوا۔ وہ جلوہ افروز تھے۔ میں نے سلام عرض کیا،انہوں نے سلام کا جواب دیا اور مجھ سے پوچھا:
’’عبدالملک بن قریب الاصمعی آپ ہی ہیں‘‘
میں نے عرض کیا: ’’جی ہاں! میں امیر المؤمنین کا غلام اصمعی ہوں۔‘‘
کہنے لگے: ’’اس بات کو اچھی طرح جان لو! کسی بھی آدمی کا بچہ در حقیقت اس کے دل کا ٹکڑا اور پھل ہوتا ہے۔ میں اپنے شہزادے’’محمد‘‘ کو اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھ کر تمہارے حوالے کر رہا ہوں، لہٰذا اسے ہرگز ایسی تعلیم نہ دینا جو اس کے دین کی خرابی کا ذریعہ بن جائے اور اس کی ایسی تربیت کرنا کہ کل کو یہ مسلمان کا خلیفہ بننے کی صلاحیت رکھے‘‘

اصمعی رحمۃاللہ علیہ:
’’امیر المؤمنین کی اطاعت فرض ہے۔ان شااللہ تعالیٰ ایسا ہی ہوگا۔‘‘
پھر انہوں نے اپنا شہزادہ میرے ساتھ کر دیا، میں اسے لے کر ایک خصوصی کمرے میں جو خاص شہزادے کے لیے تعلیم گاہ کے نام سے تیار کروایا گیا تھا، چلا گیا اور اسے بہتر سے بہتر تعلیم دینے لگا،کل تک میں پریشان تھا کہ میں اسلامی سلطنت کے فرمارواں کے محل کا مستقبل ایک مکین بن جائوں گا۔
وہاں میری خوب آئو بھگت کی جاتی تھی،کئی خادم میری خدمت پر مامور کئے گئے تھے،طرح طرح کے بچھونے،کپڑے،کھانے اور نہ جانے کس کس انداز سے میری خدمت کی جاتی تھی،جس کا میں کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا اور ان سب کے علاوہ ماہانہ دس ہزار درہم وظیفہ بھی دیا جاتا تھا،البتہ مجھے اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ شہزادے کو صرف کھانا کھانے کی چھٹی دی جائے،جس میں وہ گھر والوں کے ساتھ کھانے میں شرکت کرے،میں نے ہامی بھر لی کہ ٹھیک ہے۔
ان سب کے علاوہ میں عام لوگوں کی مددکرتا رہتا تھا،جس پر خلیفہ کی طرف سے مجھے بعض اوقات بھاری بھرکم وظیفے اور ہدایا پیش کئے جاتے تھے۔میں وہ تمام چیزیں جمع کرتا تھا اور ایک ایک کر کے بصرہ بھیجتا رہتا تھا،اسی سے میں نے اپنا بصرہ والا گھر بنایا،بہت سی زمینیں خریدیں اور جائیدادیں بنائیں۔
میں نے شہزادے کو قرآنِ کریم،فقہ،لغت،تاریخ،شعر وغیرہ کی بھرپور تعلیم دی اور اس نے بھی پوری دل جمعی کے ساتھ یہ سب علوم حاصل کیے۔
ہارون رشید نے ایک مرتبہ جائزہ لینے کیلئے اسے اپنے پاس بلوایا اور بچے سے برجستہ تمام جوابات پانے پر بہت ہی زیادہ تعجب اور حیرت کا اظہار کیا کہ اتنی کم مدت میں اتنا بڑا کمال حاصل کر لینا بہت ہی بڑی بات تھی۔

خلیفہ نے جائزہ لینے کے بعد مجھ سے کہا:
ماشاء اللہ! بچے نے زبردست جوابات دیئے ہیں،میں چاہتا ہوں کہ یہ جمعے کی نماز پڑھائے،لہٰذا اسے کوئی خطبہ یاد کرا دیجئے!‘‘ میں نے اسے خطبہ یاد کرا دیا اور اس نے جمعہ کی نماز پڑھائی،میں بھی اس کے ساتھ ہی تھا۔
ہارون رشید خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا اور مارے خوشی کے ہر خاص و عام پر دراہم نچھاور کر رہا تھا اور میرے پاس بھی ہر طرف سے انعامات اور مبارک بادیں آ رہی تھیں، اس طرح میرے پاس بے پناہ مال اکٹھا ہو گیا۔‘‘
خلیفہ نے مجھے دربار میں بلایا،شکریہ اور مبارک باد دیتے ہوئے مجھ سے کہا:
’’اس عظیم احسان کے بدلے، تم جو کہو اور آرزو ظاہر کرو گے، وہ تمہیں ان شااللہ و تعالیٰ ضرور دیا جائے گا۔‘‘
اصمعی رحمۃ اللہ علیہ:’’میں کیا خواہش ظاہر کروں،ساری خواہشات اور آروزوئیں تو پوری ہو گئی ہیں۔‘‘
پھر بھی انہوں نے میرے لئے ایک عظیم مالی سرمایے،عمدہ اور نفیس ملبوسات، اعلیٰ خوش بوئوں،غلاموں،باندیوں اور مختلف ساز و سامان کے ہدیہ کرنے کا حکم جاری کر دیا۔
پھر مجھ سے کہا:’’ تم اپنے دل کی چاہت بتائو، وہ بھی پوری ہو جائے گی۔‘‘
اصمعی رحمہ اللہ تعالیٰ: ’’اگر امیر المؤمنین مناسب سمجھیں تو مجھے واپس’’بصرہ‘‘ جانے کی اجازت مرحمت فرما دیں۔‘‘
خلیفہ نے میری منشاء کے عین مطابق بصرہ کے گورنر کو لکھ دیا اور میں بصرہ واپس آ گیا۔
الحمدللہ! میرا گھر اب ایک عظیم محل میں تبدیل ہو چکا تھا،جائیدادیں بھی بے پناہ بڑھ گئیں اور نعمتوں کی موسلا دھار بارش کو دیکھ کر،بصرہ کا کوئی بھی آدمی میرے شاہی اعزاز میں آنے سے پیچھے نہیں رہا، بلکہ ہر کسی کی یہ دلی آرزو تھی کہ میرے اعزاز میں اس کی شرکت ہو جائے۔
اعزازیے کا تیسرا روز بصرہ کے کم حیثیت لوگوں کے لیے منتخب کیا گیا تھا کہ وہ تیسرے دن آ کر مجھ سے ملیں گے، ان میں سے ہر ایک کا میں بغور جائزہ لے رہا تھا،کیوں کہ کل میں ان سے بھی زیادہ بے حیثیت تھا، بہرحال ان کو ٹٹولتے ہوئے اچانک میری نگاہ اسی’’سبزی فروش‘‘ پر جا کر ٹھہر گئی، میں حیران تھا کہ کل تک جو مجھے کسبِ معاش کی ترغیب دے رہا تھا اور کتابوں کو بے فائدہ کہہ رہا تھا،آج بھی اس پر میلا کچیلا عمامہ،پتلی چادر،معمولی جبہ،لمبی قمیص،پیروں میں بجائے جوتے کے دو موزے تھے۔
پھر اس سے بھی زیادہ حیرت اس کے اندازِ گفتگو پر ہو رہی تھی۔مجھ سے یوں مخاطب ہوا:’’کیا حال ہے آپ کا اے عبدالملک!‘‘
حالانکہ وہ میرے اعزازیے میں آیا ہوا ہے اور اتنی بھی تمیز نہیں ہے کہ جس کے اعزاز میں صوبے کا گورنر بیٹھا ہوا ہے اس کے سامنے مجھے بجائے کنیت کے نام سے پکار رہا ہے۔اس کی اس حماقت پر میری بے ساختہ ہنسی چھوٹ گئی۔
اصمعی رحمۃاللہ علیہ:’’الحمدللہ!میں بالکل خیرت سے ہوں۔ میں نے اپنی کتابوں کو پانی سے جب سیراب کیا تو اس سے یہ فصل اُگ آئی جو آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں!‘‘
بہرحال اس کے بعد میں نے ہمیشہ اس کے ساتھ اچھا ہی معاملہ کیا،بلکہ میں نے اسے اپنا وکیل)گھریلو کام کاج کے لیے( بھی بنا لیا۔اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ اس نے محض اپنے فضل و احسان سے مجھے وہ کچھ دیا جس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ یہ محض فضل خداوندی ہی کا فیض ہے۔