آئو سائفر سائفر کھیلتے ہیں

لیجئے وفاقی کابینہ نے سائفر آڈیو لیکس پر سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف کارروائی کی منظوری دے دی ہے، کابینہ کمیٹی کی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ سائفر سے متعلق آڈیو لیک قومی سلامتی کا معاملہ ہے اس پر کسی تاخیر کے بغیر قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔ سائفر آڈیو لیکس کے معاملہ پر عمران خان کے ہمراہ شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور اعظم خان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی۔ سائفر آڈیو لیکس کی تحقیقات وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف آئی اے کرے گا۔ ایف آئی اے کے سینئر حکام پر مشتمل کمیٹی دیگر انٹیلی جنس ایجنسیوں سے افسران اور اہلکاروں کو کمیٹی میں شامل کرنے کی مجاز ہوگی۔ سائفر آڈیو لیکس پر حکمران اتحاد کی بڑی جماعت(ن)لیگ کے رہنما کہتے ہیں عمران خان کو نشان عبرت بنادیا جائے گا جبکہ پی ٹی آئی کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے نہیں عدالتی کمیشن تحقیقات کرے۔ مخالف سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے کے خلاف سخت بیانات اور ایک ادارے پر اعتماد دوسرے پر عدم اعتماد سے بنی فضا میں تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ اداروں کو متنازعہ بنادیا گیا ہے۔ انصاف صرف اسی کو قرار دیا جاتا ہے جو ایک جماعت کو ملے اس پر دوسری جماعت کا موقف عدم اعتماد کا اعلان ہوتا ہے۔ سیاسی رہنمائوں نے اپنی روش نہ بدلی تو معاملات کے بگڑنے کا اندیشہ ہے۔ جہاں تک سائفر آڈیو لیکس پر تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا تعلق ہے تو یقینا یہ حکومت کا اختیار ہے البتہ بہتر ہوتا کہ اگر آڈیو لیکس کے مجموعی معاملہ پر ایک ہی تحقیقاتی کمیٹی بنادی جاتی۔ عمران خان کی سائفر آڈیو سے قبل وزیراعظم شہباز شریف کی آڈیو بھی لیک ہوئی تھی ثانیا یہ کہ اگر تحریک انصاف کا یہ مطالبہ مان لیاجائے کہ سائفر اور سائفر آڈیو لیکس دونوں کی تحقیقات کے لئے عدالتی کمیشن بنادیا جائے تو اس میں کسی کی سبکی کا پہلو ہرگز نہیں درست یا غلط عمران خان 6ماہ میں بیرونی مداخلت کا بیانیہ عوام کے ایک حصے سے منواچکے ہیں۔سائفر آڈیو لیکس کے حوالے سے عمران خان اور ان کی جماعت وزیراعظم پر الزام لگارہے ہیں کہ یہ آڈیو کسی ہائیکر نے نہیں بلکہ انہوں نے لیک کیں اور اس سے حلف کی خلاف ورزی ہوئی۔ الزامات اور جوابی الزامات سے بنے ماحول میں کیا ایف آئی اے کی تحقیقاتی کمیٹی سے سابق وزیراعظم اور ان کے رفقا تعاون کریں گے؟ بظاہر اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر ٹھنڈے دل کے ساتھ فیصلہ سازوں کو غور کرنا ہوگا۔
یہ امر بہرطورکسی سے مخفی نہیں کہ سائفر سے کشیدکی گئی مبینہ امریکی سازش اور پھر اپنائے گئے سیاسی بیانیے سے ملک کی تینوں بڑی انٹیلی جنس ایجنسیاں اتفاق نہیں کرتیں۔ خود آڈیو لیکس میں موجود گفتگو ان الزامات کو تقویت دیتی ہے جو اس حوالے سے گزشتہ 6ماہ سے امریکی سازش کے مبینہ بیانیہ کے مخالفین لگارہے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں رہا مبینہ سازشی بیانیہ کی بنیاد پر ہونے والے پروپیگنڈے سے ایسی فضا بنادی گئی ہے کہ ایف آئی اے کی تحقیقات کے نتائج کو ایک فریق قبول نہیں کرے گا جس سے نیا تنازع برپا ہوگا۔ مناسب یہ ہے کہ حکومت مبینہ امریکی سازش والے سائفر اور سائفر آڈیو لیکس دونوں کی تحقیقات کے لئے عدالتی کمیشن قائم کرنے پر غور کرے البتہ اگر کمیشن تشکیل پاتا ہے تو تحریک انصاف کی قیادت سے کمیشن یہ یقین دہانی حاصل کرے کہ فیصلہ قبول کیا جائے گا۔ یقین دہانی کا حصول اس لئے ضروری ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت کسی بھی معاملے پر جس طرح لمحہ بھر میں موقف تبدیل کرتی ہے اس کی وجہ سے بعض حلقوں کا یہ خیال بھی ہے کہ فوری طور پر اگر حکومت سائفر سے جڑے تمام معاملات کی تحقیقات کے لئے عدالتی کمیشن کے قیام کا اعلان کرتی بھی ہے تو تحریک انصاف کسی توقف کے بغیر یہ کہہ سکتی ہے کہ چونکہ سابق سپیکر اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی مستعفی ہونے سے قبل ایوان میں یہ کہہ چکے ہیں کہ مبینہ امریکی سازش حقیقت ہے اس لئے تحقیقات کی ضرورت نہیں تو ایک اور مسئلہ اٹھ کھڑا ہوگا۔ اسی طرح یہ معاملہ بھی بہت اہم ہے کہ سائفر کا وزیراعظم ہائوس کے ریکاڈر میں اندراج موجود ہے لیکن ریکارڈ میں دفتر خارجہ کو واپس بھجوانے کے حوالے سے اندراج نہیں۔ اس ضمن میں ایک اور سوال یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی نیشنل سکیورٹی کونسل کا سائفر کے معاملے پر ایک اجلاس بلایا تھا کیا اس اجلاس میں دفتر خارجہ کے ریکارڈ والی کاپی لائی گئی تھی یا وزیراعظم ہائوس کے ریکارڈ میں موجود کاپی؟ کیونکہ اگراس اجلاس میں دفتر خارجہ والی کاپی سے استفادہ کرکے موضوع پر بات ہوئی تو تب یہ کیوں نہ بتایا گیا کہ وزیراعظم ہائوس کے ریکارڈ سے سائفر کی کاپی غائب ہے؟ ہماری دانست میں یہ سوال بہت اہم ہے اس کا جواب تلاش کئے اور عوام کو بتائے بغیر آگے بڑھنے کا اولا تو کوئی فائدہ نہیں ثانیا یہ کہ تحریک انصاف یہی کہے گی کہ کاپی موجودہ حکمرانوں نے گم کرکے عمران خان پر الزام لگایا ہے۔ اس پر دو آرا نہیں کہ سائفر کا گم ہونا اور سائفر آڈیو لیکس دونوں اہم معاملے ہیں انہیں بچوں کا کھیل بنانے کی بجائے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔ مکرر اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ اس حساس معاملے پر سیاسی بیان بازی سے گریز کیا جائے، معاملہ صرف سائفر کے گم ہونے یا آڈیو لیکس کا ہی نہیں بلکہ اس سائفر کی بنیاد پر بنائے گئے سیاسی بیانیہ کی وجہ سے پاک امریکہ تعلقات متاثر ہوئے۔ امریکی حکام نے ایک سے زائد بار کسی سازش کا حصہ ہونے سے انکار کیا مگر عمران خان بدستور بضد ہیں کہ انہیں اقتدار سے نکلوانے کے لئے امریکہ نے پی ڈی ایم کی مدد کی۔ گزشتہ روز بھی ٹیکسلا میں انہوں نے اپنے خطاب میں چند ایسی باتیں کہیں جنہیں نرم سے نرم الفاظ میں بھی عسکری اداروں پر حملہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معاملے کو سیاسی بنیادوں پر آگے بڑھانے کی بجائے ٹھوس قانونی انداز میں آگے بڑھایا جائے اور اس بات کو بھی یقینی کہ عمران خان تحقیقاتی عمل میں شریک ہوں تاکہ پورا سچ عوام کے سامنے آئے۔ حرف آخر یہ ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی نیک نیتی ثابت کرکے پر ختم کردی جبکہ لاہور ہائیکورٹ نے مریم نواز کو پاسپورٹ واپس کرنے کا حکم دیا ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان نے کل بھی کہا کہ ”اس ملک میں طاقتور لوگ قانون کے نیچے نہیں ہیں”۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے