بھارت کو مذاکرات کی پیشکش

وزیراعظم شہباز شریف نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں اور بھارت میں مسلمان اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک ‘ظلم اور تشدد پر سخت تنقیدکرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ علاقائی استحکام اور خوشحالی کے لئے ہم بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ قازقستان میں ایشیا میں روابط اور اعتماد سازی کے اقدامات سے متعلق سیکا سربراہی اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ بھارت کی جمہوریت ‘جبر اور بربریت کے لئے زیادہ جبکہ آزادی اظہار رائے اور انسانی حقوق کے لئے کم جانی جاتی ہے’ یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ بھارت اقلیتوں’ ہمسایہ ممالک اور خطے کے لئے بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ اس کے باوجود ہم خطے میں امن و خوشحالی اور ترقی کے لئے بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہیں’ ہم نہیں چاہتے کہ دونوں ممالک مزید غربت اور بے روزگاری کا سامنا کریں۔واضح رہے کہ 2016سے پاکستان اور بھارت کے درمیان دوطرفہ مذاکرات معطل ہیں جبکہ دونوں ممالک کے درمیان ماضی میں3بار جنگ بھی چھڑ چکی ہے۔مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم اور غیرقانونی طور پر قبضے کے بعد پاکستان نے 2019سے سفارتی تعلقات بھی کم کردئیے تھے’ بعد ازاں مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کے ساتھ نہ ختم ہونے واقعات اور بھارت میں مسلمان اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک اور تشدد کے واقعات نے دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی پیش رفت کے امکانات کو مزید کم کردیا۔تاہم دونوں ممالک نے گزشتہ سال بیک چینل ڈپلومیسی کے تحت لائن آف کنٹرول پر2003کی جنگ بندی معاہدہ کی بحالی پر اتفاق کیا تھا۔البتہ اس جنگ بندی معاہدہ میں تسلی بخش پیش رفت نہیں ہوسکی تھی پاکستان کا ہمیشہ سے یہی موقف رہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کو بڑھانے کے لئے بھارت ساز گار ماحول پیدا کرے۔شہباز شریف نے کہا کہ ہم بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ بھارت کو ان مسائل پر بات کرنے پر رضامندی ظاہر کرنا ہوگی جن کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان فاصلے پیدا ہوئے اور تجارت’ سرمایہ کاری کے شعبوں پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے۔سیکا سربراہی اجلاس میں بھارت کی نمائندگی کرنے والی وزیر مملکت برائے امور خارجہ میناکشی لیکھی نے پاکستان کے ریمارکس پر سخت ردعمل دیا وزیراعظم شہبازشریف نے تقریب میں جو کچھ کہا وہ بھارت کے اندرونی معاملات، خودمختاری اور علاقائی سا لمیت میں مداخلت کے مترادف ہیںپاکستان کی جانب سے جب بھی بھارت کو سنجیدہ اور نتیجہ خیز مذاکرات کی پیش کش ہوئی ہے ان کے پاس سرحد پار دہشت گردی کے الزامات کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی بدلتے حالات ان کی یہ دلیل بھی اب بودی ہو چکی ہے اس لئے کہ پاکستان کسی گروہ کو بھارت میں زبردستی کیسے بھیج سکتا ہے جب سرحدوں کی حفاظت کے لئے بھارتی فوج کھڑی ہے بھارت کو بخوبی علم ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد کا باب رقم کرنے والے ظلم و بربریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے عوام ہیں یہ لوگ سرحدوں پر نہیں بلکہ شہری آبادی اور علاقوں میں ہیں سرحدی خلاف ورزیاں ہوتیں تو بھارتی فوج سے ان کی مڈ بھیڑ ہوچکی ہوتی اب دنیا کو بھی بھارت کی بودی دلیل اور اعتراض کاعلم ہو چکا ہے اس لئے ان کے بلاوجہ کے واویلا پرتوجہ دینے والا کوئی نہیں اس طرح کے واویلا کا مطلب سوائے اپنے مظالم اور زیادتیوں پر پردہ ڈالنے کے علاوہ کچھ نہیں بھارت مسلسل اس کی سعی میں ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور خود اپنے آئین کو بھی پامال کرکے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا باقاعدہ حصہ بنائے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کرکے بھارت نے اس سازش کو عملی جامہ پہنانے کی جوابتداء کی ہے اس کے خلاف عوام کا ردعمل فطری امر ہے جس سے بھارت بوکھلاگیا ہے پاکستانی قیادت کی جانب سے بار بار مذاکرات کی پیشکش ہوتی رہی ہے لیکن بھارت کبھی بھی سنجیدہ اور بامقصد مذاکرات پر مائل نہیں ہو رہا جس سے اس امر کا بخوبی اظہار ہوتا ہے کہ مذاکرات کی میز پر ان کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں بھارت اب تک اقوام متحدہ کی قرارداوں پر عملدرآمد پر تیار نہیں ایسے ملک سے مذاکرات کی توقع ہی عبث ہے پاکستان میں اگر چہ ایک مضبوط لابی بھارت سے مذاکرات کی ہر دور میں مخالفت کرتی آئی ہے لیکن اس کے باوجود بھی پاکستان ہر وقت مذاکرات پرآمادہ ہے جس کا بھارت کی جانب سے مثبت اور ٹھوس جواب آئے تو بات آگے بڑھ سکتی ہے پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی خرابی سے پورا خطہ متاثر ہو رہا ہے بھارت اگر اپنی ہٹ دھرمی سے باز آکر ہمسایہ ممالک کے ساتھ معاملات کو احسن انداز میں طے کرنے کی راہ اختیار کرے تو صرف پاکستان اور بھارت بلکہ نیپال ‘ سری لنکا اور بنگلہ دیش سے بھی اس کے تعلقات بہتر ہونے سے پورے خطے پر مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جس سے خطے میں امن و خوشحالی کی راہ ہموار ہوگی پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری کا ایک ذریعہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور سرحدی تعلقات میں بہتری لانے سے راہ ہموار ہوسکتی ہے لیکن بھارت تجارت کا تو خواہاں ضرور ہے لیکن پاکستان کے ساتھ دیگر معاملات میں بہتری لانے پر آمادہ نہیں۔ وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کا جو اعادہ کیا ہے جس کا بھارت کو سنجیدہ جواب دینا چاہئے تاکہ برصغیر کے دو ایٹمی ممالک کے درمیان ہر وقت کشیدگی کے ماحول میں کمی آئے اور دونوں ممالک کو دفاعی اخراجات اٹھانے کی بجائے عوام کی فلاح پر وسائل خرچ کرنے کا موقع ملے۔

مزید پڑھیں:  سکول کی ہنگامی تعمیرنو کی جائے