سیاسی مسائل کا حل

مقولے کی حد تک مشہور و مجرب ہے کہ سیاسی مسائل کا حل مذاکرات کی میز پر ہی نکلتا ہے سیاست تو کیا اب تو جنگوں کا حل بھی میدان جنگ کی بجائے مذاکرات کی میز ہی پر نکلنے لگا ہے افغانستان میں کتنا عرصہ جنگ و جدل کا ماحول رہا بالاخر سپر طاقت نے دوحہ میں سپر ڈال دی اس کے بعد کے حالات آپ کے سامنے ہیں ملکی سیاست میں عمران خان کوبھی نااہلوں کی قطار میں لاکھڑا کرنے کے بعد حساب برابر ہوگیا ہوگا عمران خان کو بھی اب اندازہ ہوگیا ہے کہ وہ خواہ کتنے بھی مقبول ہوں ان کے دائیں بائیں کھڑے ہوئے افراد کی تلوں میں تیل نہیں گو کہ اس کے باوجودبھی وہ ایک جانب احتجاج کی کال دینے جارہے ہیں مگر دوسری جانب منتظر ہیں کہ پس پردہ مذاکرات کاکوئی نتیجہ نکل آئے پی ڈی ایم کی قیادت کو جتنا وقت گزارنا تھا وہ گزار چکے بس ایک پڑائو باقی ہے مہینے کے اندر اندر وہ منزل بھی آنی ہے پھر انتخابات کرانے میں مضائضہ نظر نہیں آتا یہ الگ بات ہے کہ بھان متی کے کنبے کا کوئی فرد تریاہٹ کا مظاہرہ کرے ۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی بیک ڈور مذاکرات کے سوال کے جواب میں عندیہ دیا ہے کہ ایسا ہو رہا ہے کچھ دن پہلے وہ ایک اور موقع پر بھی ایسا ہی اشارہ دے چکے ہیں اچھی بات ہے کہ مذاکرات ہوں اور یہ ملک نہ صرف ان حالات سے نکل آئے بلکہ اب تو سیاست میں کسی کی بھی مداخلت نہ ہونے اور سبھی کو کھیل کا یکساں موقع ہونے پر بھی اتفاق رائے کی ضرورت ہے اس کے بعد دوڑ لگائیں جو جیتا وہ سلطان اور بس۔یہ گلے شکوے اور الزامات تو ملکی سیاست کا حصہ ہیں البتہ اس میں کچھ کمی لانے اور حقیقی و برحق تنقید پر اتفاق ہوتوسب کا بھلا ہوگا الزامات درالزامات کی بوچھاڑ اور سوشل میڈیا میں گھڑی گئی کہانیوں اور جھوٹ میں سچ کو تلاش کرکے پرکھنا ناممکن سا ہوگیا ہے فریقین کو سمجھنا چاہئے کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے اس لئے سچائی اختیار کی جائے بہرحال سیاست کی دنیا ہوتی ہے ایسی کہ یہاں کسی کو کوئی اعتبار اور قول و فعل کا قرار مشکل ہے پھربھی جو عناصر قاعدے سے تنقید کرتے ہیںوہ احسن ہے اور جو پراپیگنڈہ بازی کا سہارا لے رہے ہوتے ہیں ان کو سوچنا چاہئے کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے اور پراپیگنڈہ دیریا بدیر طشت ازبام ہوہی جاتا ہے پس پردہ مذاکرات کے باوجود تنقید تو بہرحال ہو گی گزشتہ روز ہی شہباز شریف نے چیئرمین پی ٹی آئی کا نام لئے بغیر کہا کہ آپ نے قوم کو تقسیم کردیا جس کا کوئی حد و حساب نہیں ہے، قومیں اس طرح نہیں بنتی چارسال ہم سے ہاتھ نہیں ملایا اور اب کہتے ہیں ہم سے آکر بات کریں یہ دوغلا پن کب تک چلے گا ۔انہوں نے کہا کہ یہ کوئی طریقہ نہیں کہ میں ہوں تو سب کچھ ہوں اور میں نہیں تو کچھ نہیں اس طرح ملک نہیں بنتے اور نظام نہیں چلتا۔وزیر اعظم بننے سے قبل شہباز شریف صلح جو شخص کے طور پر مشہور
تھے جبکہ پی پی پی کے چیئرمین آصف علی زرداری بھی مفاہمت کے بادشاہ کہلاتے تھے جے یو آئی کے قائد بھی صلح جو سیاستدان کے طور پر مشہور تھے ماضی میں سیاسی معاملات کو سیاسی اطوار سے حل کرنے کی درجنوں مثالیں موجود ہیں اور ایسا نہ کرنے کا انجام بھی کسی سے پوشیدہ نہیں بطور حزب اختلاف جماعتوں کے ان کی کوشش رہی کہ مفاہمت اور مصالحت سے زیادہ دور نہ ہوا جائے لیکن تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سے مسلسل محولہ مقتدر رہنما جس برعکس کردار و عمل کا مظاہرہ کرتے آرہے ہیں اس کی ان سے توقع نہ تھی اب وہ مسلسل اس طرح کی سخت گیری اور غیر لچکدار رویے کا مظاہرہ کر رہے ہیںجس کے مظاہرے کے لئے تحریک انصاف کے قائد بطور خاص شہرت رکھتے آئے ہیں اسلام آباد میں نوجوانوں سے اپنے خطاب میں جہاں وزیر اعظم نے معاشرے میں تقسیم اور زہر گھولنے کو افسوسناک قراردیتے نظر آئے وہاں وہ عملی طور پراس صورتحال سے نکلنے پر خود آمادہ نظر نہیں آئے بلکہ انہوں نے مخالف فریق پر اس کا الزام لگا کر ان کی طرف سے بات چیت کی ممکنہ پیشکش ہی کو رد کردیااس عوامی انکار کے باوجود مذاکرات ہونا
سیاسی ضرورت ہے اور کہا جارہا ہے کہ پس پردہ کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے جس کی کامیابی کی ہم دعا ہی کرسکتے ہیں یہ درست ہے کہ پا کستان تحریک انصاف کی پالیسی اب بھی عوامی سطح پر تو سخت نظر آتی ہے لیکن وزیراعظم شہباز شریف کے بیان سے یہ اندازہ ہوا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے مل بیٹھنے کا عندیہ دیا گیا ہے ایک غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے سابق وزیر اعظم نواز شریف جو اسٹیبلشمنٹ کو للکارنے والوں میں سرفہرست رہے ہیں ان سے مل کر اسٹیبلشمنٹ کا مقابلہ کرنے کی پیشکش کرچکے ہیں سیاسی دنیا میں کی گئی اس پیشکش کوسیاسی چال قرار دینے کی گنجائش ہے جس سے قطع نظر کم از کم اس سے اس امر کا عندیہ ضرور ملتا ہے کہ اب تحریک انصاف کی قیادت سیاسی ڈائیلاگ پر آمادہ ہوگئی ہے اورفساد کی جڑ کا بھی ادراک ہو چکا ہے جاری ملکی حالات کا واحد حل سیاسی ڈائیلاگ ہی ہوسکتے ہیں سیاستدان ادھر ادھر جھانک کرمفاہمت کی تلاش کی بجائے سیدھے سبھائو اگر باہم مذاکرات یا پھر یک نکاتی اتفاق رائے ہی کریں تو ملک میں استحکام کی راہ ہموار ہوسکتی ہے اس ضمن میں ماضی میں کس کا کردار کیا رہا یہ اہم نہیں ہونی چاہئے بلکہ اہم بات یہ ہونی چاہئے کہ سیاستدانوں کے درمیان ڈائیلاگ ہونی چاہئے اور سیاسی طور طریقوں سے سیاسی مسائل کا حل تلاش کیا جانا ہے وزیر اعظم شہباز شریف اور پی ڈی ایم کے دیگر عمائدین کی جانب سے جو غیرلچکدار رویہ اختیار کیاگیا ہے اس کے تئیں تحریک انصاف کے قائد کو الزام اس لئے نہیں دیا جا سکتاکہ ان کا کردار و عمل بھی مختلف نہیں اگر سابق وزیر اعظم عمران خان اپنے دور اقتدار میں سیاسی ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کرتے اور حزب اختلاف کو اہمیت دیتے تو آج صورتحال شاید یہ نہ ہو تی بلکہ مختلف ہوتی وزیر اعظم اور پی ڈی ایم کی قیادت کو انکار کا حق حاصل ہے لیکن ان کے پاس بھی کوئی دوسرا راستہ نہیں سیاسی حالات کے باعث ملک کو کب تک مفلوج رکھا جا سکے گاجاری حالات میں زیادہ دیر ایسا ممکن نظر نہیں آتا اس طرح کی صورتحال کے باعث ملک پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے اور معاشی حالات خاص طور پر ابتری کا شکار ہیں اگر ان حالات سے نکلنا ہے تو پھر اعتدال اور ڈائیلاگ کا راستہ ہی اختیار کرنا ہوگا۔

مزید پڑھیں:  ہے مکرر لب ساتھی پہ صلا میرے بعد
مزید پڑھیں:  9مئی سے 9مئی تک

|