آٹھ شعروں کی غزل پرٹیکس کاٹا جائے گا

گزشتہ روز اپنی لکھت پڑھت والی میز کی صفائی کر رہا تھا کیونکہ بہت سی کتابیں اور مسودے اکٹھے ہو گئے تھے اور میز نے ایک گودام نہیں تو کم از کم ایک ڈھیر کی شکل ا ختیار کر لی تھی ‘ کتابیں ‘ رسالے ‘ اخبارات کے تراشے ‘ مسودات ‘ حلقہ ارباب ذوق میں بحث کے لئے پیش کی جانے والی تحریریں یعنی نظم ونثر کے کاغذات یہاں تک کہ ان کے درمیان اس موبائل کمپنی کے وہ کارڈز بھی جن کو ہر مہینے ہم سکریچ کرکے موبائل فون میں لوڈ کرتے ہیں تاکہ ہمارا رابطہ قائم رہے ‘ ان میں قیمتوں کے”تغیر وتبدل” کا سفر دیکھ کرحیرت ہوئی کہ یہ کمپنیاں کس قدر”ترقی” کر رہی ہیں یعنی عام صارفین سے مہینے بھر کے بنڈل کے حوالے سے ا ن کا سفر کہاں سے شروع ہوا تھا اوراب کہاں جا کر (عارضی) دھرنا دے رہی ہیں ‘ ہم نے عارضی کالفظ اس لئے لکھا ہے کہ اب آگے جانے یہ سفر موجودہ پڑائو کے بعد کہاں جا کر نئے ”دھرنے”میں تبدیل ہوگا ‘ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اس میں ان کمپنیوں کا بھی کیا دوش جب آئی ایم ایف کے تیور دیکھ کر زندگی کے ہر شعبے پر ٹیکسوں کا نفاذ کرنے پر سرکار مجبور ہے اور اخراجات میں بے تحاشا اضافہ بھی ہو رہا ہے تو پھر موبائل فون چلانے کے لئے سہولیات فراہم کرنے والی کمپنیوں کے اخراجات میں بھی اضافہ تو ہو گا جبکہ اس قسم کے اضافے مختلف ٹیکسوں کی صورت میں چکر کاٹ کرعوام ہی تک منتقل کرنا بھی تو عام سی بات ہے ‘ یہاں تفنن طبع کے طور پر ہم اپنے لڑکپن کا ذکر(چند جملہ ہائے معترضہ کی صورت) کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور وہ یہ کہ اس دور میں بعض سبزیاں جو آج کل تل کر فروخت ہوتی ہیں ‘ اس زمانے میں ان کے ساتھ یہ سلوک روا نہیں رکھا جاتا تھا بلکہ ویسے ہی ان کو دو تین دانے اکٹھے کرکے قیمت بتا دی جاتی تھی یعنی پھول گوبھی ہی کولے لیں آج اس کوبھی(لمبی ڈنڈیوں سمیت) 80 روپے کلوکے حساب سے بیچا جاتا ہے جبکہ جس زمانے کی ہم بات کر رہے ہیں یعنی 50ء اور 60 کی دہائیوں کے زمانے میں گھنٹہ گھر کے ملحق جو پرانی سبزی منڈی ہے ۔ اس میں دکاندار تین تین ‘ چار چار گوبھی ایک ساتھ ڈھیریوں کی صورت میں دکان کے آگے رکھ کر ڈھائی تین آنے (جی ہاں روپے نہیں آنے) کے بھائو گاہکوں کو تھما دیتے تھے اسی طرح سنگترے اورمالٹے بھی ہم نے پہلی بار اپنے قیام کوئٹہ کے دوران ترازو میں تول کر خریدے ‘ جبکہ سبز دھنیا ‘ پودینہ اور سبز مرچیں سبزی کے ساتھ مفت دی جاتیں ‘ آج عام سبزیوں کے مقابلے میں یہ تینوں اشیاء زیادہ مہنگے داموں فروخت ہوتی ہیں ان سب کا مہنگائی سے رشتہ اب اٹوٹ ہوتا جارہا ہے اور اس کی بھی وجہ ہر شعبہ زندگی پر ٹیکسوں کی بھر مار ہے وہ جو ہم نے ابتداء ہی میں موبائل کارڈز کی بات کی ہے تو ان کارڈز کی جو مختلف اوقات کی باقیات ہمیں صفائی ستھرائی کے دوران ملی ان پر 499 روپے سے لے کر اب موجودہ 699 روپے تک رقم کا اندراج ہے جبکہ درمیان میں 520 ‘ 599’649 کے ہندسے بھی نظرآتے ہیں ‘ اور اب تو سپر کارڈ کی قیمت کہیں زیادہ ہے جس میں سہولیات زیادہ فراہم کی جاتی ہیںان ہندسوں کے لکھنے سے ہمارا مدعا وہ نہیں جو آپ(غالباً) سمجھ بیٹھے ہیں بلکہ ہم تو ٹیکسوں میں اضافے کے سفراور رفتار کو سامنے لا کر ان کے حوالے سے ادب پر پڑنے والے اثرات کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں ‘ یعنی اب شعرائے کرام کے اشعار میں ٹیکسوں کی جو گونج سنائی دے رہی ہے حالانکہ مرزا محمود سرحدی مرحوم نے نصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ پہلے اس موضوع پر کئی خوبصورت قطعات اور اشعار کہے ہیں کہ
جانتے ہو کہ چینی مہنگی ہے
میری باتوں میں اب مٹھاس کہاں
تاہم آج کے شعراء کرام کو یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ اگر صورتحال یہی رہی تو عین ممکن ہے کہ شاعری بھی ٹیکس کی زد میں آجائے گی اور حکم دیا جا سکتا ہے کہ جس نے آٹھ شعروں سے زیادہ کی غزل لکھی اس کو ٹیکس ادا کرنا پڑے گا ‘ اگرچہ اس قسم کے حکم سے ہمیں تو زیادہ فرق نہیں پڑے گا کہ اب ہم ناپ تول کر یعنی گن چن کر مختصر غزل کہتے ہیں البتہ ایک کرم فرما کی فکر ضرور ہے جو ”مہنگائی” کے اس دور میں بھی عام طور پرپندرہ بیس اشعارکم تو کیا کہہ کر غزل مکمل کرتے ہیں۔خیر جانے دیں اس حوالے سے ایک پاکستانی شاعر مقیم نیویارک نے جو طنزیہ نظم کہی ہے خاصے کی چیز ہے ۔ اس کا عنوان انہوں نے ”آٹھ شعروں کی غزل پرٹیکس کاٹا جائے گا” رکھا ہے ‘ مگر خود اپنی نظم میں بارہ شعر لکھے ہیں ‘ ملاحظہ فرمائیں۔
بڑھ گیا خرچہ موبائل فون کا اور فیکس کا
حکم جاری ہو گیا ہے اب وفاقی ٹیکس کا
حسرت دیار پر ‘ اشکوں کی طغیانی پہ ٹیکس
وہ جو نلکوں میں نہیں آتا ‘ اسی پانی پہ ٹیکس
کوچہ جاناں کی لمبائی پہ چوڑائی پہ ٹیکس
عاشق ناشاد کی کمزور بینائی پہ ٹیکس
شوہر مظلوم کی دل پھینک آزادی پہ ٹیکس
ایک شادی کی رعایت ‘ دوسری شادی پہ ٹیکس
طفل دوئم پر جب”این اوسی”طلب فرمائیں گے
پہلے بچے کے بقایاجات مانگے جائیں گے
ٹیکس زدہ پر اگر دے دو ‘ تو بریانی فری
صرف پاکستانیوں پرٹیکس ‘افغانی فری
اورسب کو ہے معافی صرف بدحالوں پہ ٹیکس
شاعروں ‘ منشیوں پہ اور قوالوں پہ ٹیکس
اتنے پیسوں میں کہاں سے گھر میں آٹا جائے گا
آٹھ شعروں کی غزل پر ٹیکس کاٹا جائے گا
ناظم بزم سخن دے دے اضافہ ٹیکس کا
اک لفافہ شاعری کا ایک لفافہ ٹیکس کا
اے مرے محنت کشو ‘ دن رات مزدوری کرو
پیٹ کے دوزخ سے پہلے تم یہ جرمانہ بھرو
اپنی قسمت میں نہیں ہے کوئی دن آرام کا
تین ہفتے ٹیکس کے ہیں ‘ایک ہفتہ کام کا
اے کنوارو! وصل کی چاہت سے پہلے مال دو
ورنہ اپنی شادیوں کو التواء میں ڈال دو

مزید پڑھیں:  ''ہمارے ''بھی ہیں مہر باں کیسے کیسے