عمران خان ‘عجیب شخصیت

سید ابواعلیٰ مودودی نے ایک بار کہا تھا کہ ”جس آدمی سے ٹوٹ کر محبت کرنے والے بھی ہوں ‘ اور اس سے نفرت کرنے والے بھی ہوں ‘ تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ موصوف کچھ نہ کچھ اہم کام ضرور کرتا ہے عمران خان بھی ان شخصیات میں سے ہیں جن سے محبت و عقیدت رکھنے والے بھی بے شمار ہیں اور اختلاف و تعصب رکھنے والے بھی موجود ہیں۔میں اس زمانے سے جب آپ کرکٹ کے میدانوں کے ہیرو کہلاتے تھے ‘ آپ کے حوالے سے آپ کے عقیدت مندوں اور مخالفین کی آراء سے لطف اٹھاتا رہا ہوں اور پھر1992ء کا وہ دن بھی دنیا نے دیکھا کہ عمران خان کرکٹ ورلڈ کپ ہاتھوں میںاٹھائے دنیا کو بتا رہے تھے کہ عمران خان عام آدمی نہیں ہے ۔ آپ نے کرکٹ میدانوں کو خیبرباد کہا تو شوکت خانم کی تعمیر وتکمیل ایک اور اعلیٰ مقصد اپنے لئے چیلنج کے طور پر قبول کر لیا اور ایک دنیا دیکھ رہی ہے کہ لاہور شوکت خانم کے بعد پشاور میں بھی یہ ادارہ (شوکت خانم) سٹیٹ آف دا آرٹ کے ایک اعلیٰ نمونے کے طور پر عوام کی مدد کے لئے موجود ہے ۔ کراچی میں بھی یہ ادارہ زیر تعمیر ہے ۔ شوکت خانم وہ پراجیکٹ ہے جس کو مغرب کے ماہرین اور پاکستانی ڈاکٹر ایک ناممکن نہ سہی ‘ مشکل ترین کام سمجھ رہے تھے ۔ لیکن سچ کہا ہے کسی نے کہ ”ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا”۔
صحت کے میدان میں شوکت خانم کے بعد کے پی کے عوام کے لئے صحت کارڈ آپ کا وہ کارنامہ ہے کہ غریب عوام آپ کو جھولیاں بھر بھر کر دعائیں دیتے ہیں ۔ پچھلے دنوں میں خود اس تجربے سے گزرا تو پتہ چلا کہ صحت کارڈ کے حوالے سے لوگوں کے جذبات بہت مثبت اور خوشگوار ہیں اگرچہ دفتری کارروائی میں عوام کے لئے بعض مشکلات موجود ہیں ‘ جن پر کبھی تفصیل سے بات کریں گے۔ تیسرا اہم کام آپ کا نمل یونیورسٹی کا قیام ہے وہ بھی میانوالی جیسے پسماندہ علاقے میں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کا پاکستان کے ذہین نوجوان طلبہ کے لئے بالعموم اور اپنے آبائی حلقے کے عوام کے لئے بالخصوص ایک بڑی نعمت و غنیمت ہے ۔ ان اہم اداروں کو دیکھتے ہوئے بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ عمران خان پاکستان کی سیاست میں نہ آتے تو شاید پاکستان کے لئے اس لحاظ سے بہتر رہتا کہ آپ کی شخصیت مفاد عامہ کے کاموں کے حوالے سے متفق علیہ رہ کرتنازعات و اختلافات سے دور رہتی لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ کا سیاست میں آنا پاکستان کی سیاسی فضاء میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے کیونکہ مدت دراز سے دو سیاسی جماعتوں کے علاوہ بعض علاقائی و مذہبی سیاسی جماعتوں نے سیاسیات پاکستان کو تغفن زدہ کرنے کے علاوہ موروثیت کے ذریعے اپنی جاگیر بنا لیا تھا ۔ آپ نے اگرچہ اس سٹیٹس کو توڑ دیا لیکن الیکٹیبلزکے ہاتھوں بعض مقامات پر آپ بھی سیاست کے اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کے لئے مجبور ہوئے جس کے ہاتھوں پاکستانی سیاست کب سے بیمار چلی آرہی تھی’ اس کے باجود کہ عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں کرونا وبا کے ہاتھوں بہت کچھ تلپٹ ہوا اور آپ کو وہ کچھ کرنے کے مواقع نہ ملے جس کے لئے آپ ہاتھ ملا کرتے تھے لیکن پھراس میں کوئی دو رائے نہیں کہ راستے کے کچھ کانٹے ضرور ہٹا دیئے اور گھپ اندھیرے میں اپنے حصے کا چراغ بھی جلا کر گئے لیکن آپ کی بے بسی کا اندازہ پچھلے دنوں آپ کے دیئے گئے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ ”ذمہ داری میری تھی اور حکمرانی کسی اور کی”آپ کی اس بات پر عشرت حسین سابقہ گورنر سٹیٹ بینک کی تصنیف ”گورننگ دی ان گورنرایبل” کی یادآئی اور ساتھ ہی اناٹول لیون کی کتاب ”پاکستان’ اے ہارڈ کنٹری” کی بھی ‘ کہ واقعی پاکستان میں حکومت کرنا یا قانون و اصول کے مطابق کسی بھی شعبے میں کام کرنا مشکل کام ہے ۔ اس وقت عمران خان اور آپ کی پارٹی سخت مشکلات میں ہے لیکن یہ بھی ایک پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی عوام کی ا کثریت آپ کو دل و جان سے چاہتی ہے ۔ نوجوان طبقہ خواتین وحضرات سب آپ پر نثار ہونے کو تیار ہوتے ہیں۔ لیکن اے کاش!آپ کو ایسے ساتھی اور حالات میسر آجائیں کہ آپ کے دل و دماغ میں عوام کے لئے مچلتی ہوئی خواہشات کی تکمیل کی کوئی صورت بن آئے ۔ آپ کی شخصیت پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور مزید لکھا جاتا رہے گا لیکن یہ بات طے کہ آپ کی شخصیت کی متعدد خامیوں کے باوجود آپ کی خوبیاں غالب ہیں اور اسی بناء پر نوجوانان پاکستان آپ پرفدا ہیں جس کے لئے دیگر سیاسی جماعتوں کے اکابرین حیران و پریشان ہیں۔ بس یہ اللہ کی دین اور فضیل ہے جسے چاہے عطا کرے۔میں جب آپ کی شخصیت کا تجزیہ کرتا ہوں تو تعریف و تنقید کا ملا جلا رجحان پاتا ہوں۔ جب جمائما اور ان کے بیٹوں سلیمان عیسیٰ خان اور قاسم خان کو دیکھتا ہوں تو عمران پر ترس آنے لگتا ہے لیکن جب ریہام کے ساتھ آپ کی شادی کو یاد کرتا ہوں تو تقدیر کی بے بسی پرحیران ہوتا ہوں لیکن یہ تیسری شادی تو تقدیر کا عجب کھیل ہے جو عمران خان کے ساتھ کھیلا گیا ہے سیاسی مخالفین بالخصوص مولوی لوگ آپ پرآپ کی شادیوں کے حوالے سے تنقید و مذاق کے علاوہ استہزاد و تمسخر اور طعن و تشنع کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی اس شخص کا کمال ہے کہ وطن عزیز کے لئے یہ سب کچھ برداشت کرتے ہوئے تناور درخت کی طرح پاکستان کے مین چوراہے پر رہنمائی کے لئے کھڑا ہے ۔

مزید پڑھیں:  منرل ڈیویلپمنٹ کمپنی کا قیام