اعتماد سازی ہوگی کیسے ؟

متعدد معروف کاروباری شخصیات نے فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے کو پاکستان کیلئے خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سیاسی قیادت اور بزنس کمیونٹی کو عالمی برادری کے اعتماد کو بحال اور مستحکم کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ خواہش یقیناً ہر پاکستانی کی دلی آرزو ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سیاسی قیادت اور بزنس کمیونٹی اس اعتماد سازی کیلئے کیا اقدامات کرتی ہیں؟۔ اصولی طور پر سیاسی قیادت کو مستقبل میں ہمہ قسم کی شدت پسندی سے نہ صرف فاصلہ رکھنا ہوگا بلکہ شدت پسندی کے خاتمے کیلئے وہ تمام ضروری اقدامات بھی کرنا ہوں گے جو ایک پرامن اور روشن خیال سماج کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں اس کیلئے اہم ترین طریقہ اس امر کو یقینی بنانا ہوگا جو دستور میں شہری، سیاسی، معاشی اور فرد کی مذہبی آزادیوں کے حوالے سے درج ہے۔ کسی بھی ایسی تنظیم کو منظم ہونے اور سرگرمیاں شروع کرنے کی اجازت ہی نہ دی جائے جس کے نظریات سماجی وحدت کیلئے زہر قاتل ہوں۔ ماضی میں اگر دستور و قانون پر حقیقی معنوں میں عمل نہیں ہوسکا تو اس کا خمیازہ ملک اور عوام دونوں نے بھگتا ہے۔ یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ فیٹف کی گرے لسٹ سے عین اس وقت نجات ملی جب کچھ عرصہ بعد یورپی یونین کی جانب سے دی گئی جی ایس ٹی پلس کی سہولت کی مدت ختم ہو رہی ہے۔ اب حکومت بہتر انداز میں اس مدت میں اضافے کیلئے یورپی یونین سے بات چیت کر سکے گی۔ فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد یقیناً مقامی سرمایہ کاروں کو اب ماضی کی طرح کاروباری روابط بڑھانے اور ملک کیلئے زرمبادلہ کمانے کے مواقع ملیں گے اسے بھی آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ زیادہ مناسب ہوگا کہ حکومت اور بزنس کمیونٹی اکٹھے بیٹھ کر حکمت عملی وضع کریں اس سے ایک تو داخلی طور پر باہمی اعتماد کی فضاء پیدا ہوگی، ثانیہ بیرونی سرمایہ کاروں تک بھی یہ پیغام پہنچے گا کہ پاکستان اب سیاسی سماجی و معاشی طور پر تبدیل ہو رہا ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ پچھلے چند برسوں سے بعض عالمی مالیاتی اداروں نے فیٹف کی گرے لسٹ کی وجہ سے شرائط کی جو تلوار سونت رکھی تھی وہ بھی اسے نیام میں رکھ کر پاکستان سے مالی امور پر اطمینان بخش طریقے سے بات چیت کریں گے۔ اسی طرح ملک کے اندر انتظامی امور کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ پولیس، صحت، تعلیم کے شعبے اور روزگار کے نئے ذرائع فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں زندگی کا ہر شعبہ اصلاحات کا متقاضی ہے لیکن اگر اصلاحات کی ابتدا گڈگورننس کو بہتر سے بہتر بنانے سے شروع کی جائے تو جن شعبوں اور محکموں میں اصلاحات کی ضرورت ہے گڈ گورننس ان اصلاحات میں معاون ہوگی۔ اس وقت جب پاکستان کا ایک تہائی حصہ سیلابی پانی سے بری طرح متاثر ہوا اور سوا تین سے ساڑھے تین کروڑ لوگ متاثرین میں شامل ہیں، مجموعی طور پر30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے کی خبر ہلال عید سے کم ہرگز نہیں۔ گزشتہ چار برسوں کے دوران جن بین الاقوامی امدادی تنظیموں نے پاکستان میں سماجی خدمت کا اپنا پروگرام بند کردیا تھا ان سے بھی واپسی کے لئے اعتماد کے ساتھ بات چیت ہوسکتی ہے۔ بعض عالمی قوانین اور پھر فیٹف کی گرے لسٹ کی وجہ سے امداد باہمی کی جو عالمی تنظیمیں سیلاب متاثرین کیلئے مدد کی اپیلوں کے جواب پر خاموش تھیں ان کے پاس بھی بدلتے ہوئے حالات میں تعاون سے پہلو تہی کا کوئی بہانہ نہیں رہا۔ اندریں حالات ہم ملک کی مختلف الخیال سیاسی قیادت کی خدمت میں بھی دست بدستہ یہ درخواست کریں گے کہ وہ سیاسی محآذ آرائیوں، الزام تراشی کے کاروبار اور عدم برداشت کے بڑھاوے میں کردار ادا کرنے کی بجائے ملک اور عوام کے وسیع تر مفاد میں مل بیٹھیں اور اس بات پر غور کریں کہ23 کروڑ کی آبادی والے ملک کی اکثریتی آبادی کو پسماندگی، عدم مساوات، تعلیم سے محرومی اور دوسرے مسائل سے کیسے نجات دلانی ہے۔ ملکی تعمیروترقی اور عوام کا معیار زندگی بہتر بنانے کیلئے یقیناً ہر سیاسی جماعت کے پاس اپنا پروگرام ہے کسی کے اخلاص، منشور اور جذبہ پر انگلی اٹھانے کی کسی کو ضرورت نہیں البتہ ان سیاسی قائدین کا بھی یہ فرض ہے کہ آج کے حالات میں عوام کو متحد کرکے تعمیروترقی کے اس سفر کا آغاز کریں جو پچھتر برسوں سے شروع نہیں ہوسکا۔ آئندہ نسلوں اور تاریخ کے مجرم ہی قرار پائیں گے۔ روز مرہ کے مسائل، مہنگائی، غربت، بیروزگاری، عدم مساوات، انصاف کی فراہمی میں امتیازی برتاؤ یہ ایسی حقیقتیں ہیں جن سے آنکھیں نہیں چرائی جاسکتیں۔ ان مسائل سے عوام کو نجات دلانے کیلئے جس سیاسی اعتماد سازی کی فضا کی ضرورت ہے افسوس ہمارا ملک اپنے قیام کے پہلے دن سے ہی اس سے محروم چلا آرہا ہے۔ یقیناً یہ ممکن نہیں ہوگا کہ سیاسی قیادتیں اپنی جماعتوں اور نظریات سے محروم ہوجائیں۔ بظاہر ان سے اس بات کا تقاضا بھی کوئی نہیں کر رہا بلکہ عوام صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے سیاسی قائدین عدم برداشت کو بڑھاوا دینے اور ایک دوسرے کے گریبانوں سے الجھنا چھوڑ کر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں اور شعوری طور پر یہ سمجھنے کی کوشش بھی کریں کہ محاذ آرائی کی سیاست نے ملک اور عوام کو ماضی میں کیا دیا اوراب اگر اسے ترک نہ کیا گیا تو اس کا فائدہ کیا اور نقصان کتنا ہوگا۔ اس تلخ حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں فی الوقت کسی بھی شعبہ میں سب اچھا نہیں ہے۔ عدم مساوات سے پیدا شدہ مسائل ہر گزرنے والے دن کے ساتھ گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں۔ مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں عموماً اور پچھلے ساڑھے چھ پونے سات ماہ کے دوران خصوصا مختلف طبقات کے لوگوں کو جس طبقاتی درجہ بندی میں تنزلی کا سامنا کرنا پڑا اس سے نفسیاتی عوارض میں اضافہ ہوا۔ ایسے میں اگر ملک میں سیاسی عدم استحکام کا رقص جاری رہتا ہے تو کون ہے جو مدد کیلئے آگے بڑھ کر آئے گا۔ ہم باردیگر دست بدستہ درخواست کریں گے کہ سیاسی قائدین دیوار پر لکھی حقیقتوں سے آنکھیں چرانے کی بیماری سے نجات حاصل کریں اور اس امر کو یقینی بنائیں کہ عوام کو مزید مشکلات و مصائب کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ امید واثق ہے کہ سیاسی قائدین ان معروضات پر ٹھنڈے دل سے غور کرتے ہوئے اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر داخلی اعتماد سازی کیلئے کردار ادا کریں گے تاکہ عالمی برادری کے ساتھ اعتماد سازی کے قیام میں کوئی امر مانع نہ ہونے پائے۔

مزید پڑھیں:  منرل ڈیویلپمنٹ کمپنی کا قیام